بونیر کی دینا کماری، لوجہاد اور قرآن کے احکامات
حمیرا علیم
خیبر پختون خوا میں بونیر کے سابق ڈسٹرکٹ کونسلر اور اقلیتی برادری کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر تلت سنگھ نے ایک سکھ لڑکی اور مسلمان لڑکے کی شادی اور والدین کے جبراً تبدیلی مذہب کے بعد کہا ہے کہ اس واقعے پہ سکھ اور ہندو برادری ناراض ہے، ”ہم بھی پشتون روایات کا خیال رکھتے ہیں۔”
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی غیرمسلم لڑکی نے مسلم لڑکے سے شادی کی ہو اور اس کی برادری نے لڑکے اور اس کے خاندان پہ جبراً تبدیلی مذہب کا الزام لگایا ہو۔ جب بھی ایسی کوئی شادی ہوتی ہے ایسے الزامات شاید اس لیے لگائے جاتے ہیں تاکہ اپنی لڑکی کو واپس لیا جا سکے خواہ وہ اپنی رضا سے ہی کیوں نہ مسلمان ہوئی ہو اور شادی کی ہو۔ اس خبر نے مجھے لو جہاد کی یاد دلا دی۔
"لو جہاد” یہ اصلاح کچھ عرصہ پہلے کسی ٹی وی چینل پر سننے کا اتفاق ہوا تھا۔ خبر کسی بھارتی کورٹ کے فیصلے سے متعلق تھی۔ کچھ عرصہ پہلے میری پسندیدہ مصنف عمیرہ احمد کے فیسبک پیج پر ان کے ایک نئے ڈرامے کے بارے میں خبر پڑھی جو کہ ایک بھارتی چینل پر آن ائیر ہو گا۔ کمنٹس سیکشن میں اعتراضات کی بھرمار تھی کہ "ہم عمیرہ سے اس بات کی توقع نہیں رکھتے تھے کہ وہ ایک پاکستانی مسلمان لڑکی کا افیئر کسی ہندو بھارتی لڑکے کے ساتھ دکھائیں گی۔” پھر گوگل پہ خبر پڑھی کہ فرحان اختر کی فلم "طوفان” پر بھی کچھ ایسے ہی اعتراضات بھارتی باشندوں کو ہیں کہ "ایک ہندو لڑکی کو مسلمان لڑکے کے ساتھ پیار کرتے کیوں دکھایا گیا ہے۔”
مجھے اور مذاہب کا تو علم نہیں مگر قطع نظر اس کے کہ دونوں ممالک کے مصنفین، باشندے، اداکار یا فنکار کیا سوچتے ہیں یا کیا چاہتے ہیں میں یہ جانتی ہوں کہ اللہ تعالی نے خود قرآن پاک میں ہم مسلمانوں کو واضح ہدایات دی ہیں:
"اور تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں البتہ ایک مومن لونڈی مشرک عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے اور تم مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو (مومن عورتیں) یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں البتہ مومن غلام مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے یہ (مشرک) تمہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تمہیں اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔” (البقرہ 221)
"اور تم میں سے جو شخص آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ تمہاری ملکیت میں مومن لونڈیوں میں سے نکاح کر لے۔۔ بدکاری کرنے والی نہ ہوں اور نہ ہی چوری چھپے آشنا بنانے والی ہوں۔” (النساء 25)
” زانی مرد نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ عورت سے اور زانیہ عورت سے نکاح نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک مرد ہی اور مومنوں پر یہ حرام ٹھہرایا گیا ہے۔” (النور 32)
” خبیث عورتیں خبیث مردوں کیلئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کیلئے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں۔” (النور 26)
"اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو۔۔ اگر تم انہیں مومن جانو تو انہیں کفار کی طرف نہ لوٹاؤ نہ وہ ان کیلئے حلال ہیں اور نہ وہ ان کیلئے۔ (کافر مرد مومن عورتوں کیلئے حلال نہیں)……. اور تم کافر عورتوں کو قبضے میں نہ رکھو۔” (الممتحنہ 10)
ان آیات کے الفاظ نہایت واضح طور پر یہ بیان کر رہے ہیں کہ کوئی بھی مسلمان مرد یا عورت کسی مشرک مرد و عورت سے نکاح نہ کرے خواہ مشرک اسے کتنا ہی پسند کیوں نہ ہو بلکہ اگر کسی مسلمان کو کوئی مسلمان مرد و عورت نہ ملے اور وہ نکاح کرنا چاہے تو اسے کسی مسلمان نوکر سے شادی کر لینی چاہے بجائے کسی مشرک مرد یا عورت سے شادی کرنے کے۔ مثلاً کوئی شخص کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا تھا جب وہ اسلام قبول کرتا ہے اور اس کی بیوی اسلام قبول نہیں کرتی تو ان دونوں کا نکاح خود بخود ہی ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ دونوں اسلام قبول کر لیں تو ان کا نکاح اسلامی طریقے سے دوبارہ کر دیا جائے گا۔
اور اگر نومسلم مرد یا عورت کسی ایسی جگہ ہوں جہاں انہیں اپنے ہم پلہ مسلمان نہ ملیں تو وہ کسی مسلمان نوکر سے شادی کر لیں مگر کسی مشرک سے نہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مسلمان لڑکا یا لڑکی کسی غیرمسلم لڑکے یا لڑکی سے شادی کر لے اور یہ شادی جائز بھی ہو۔ میں کوئی مفتی یا عالم نہیں ہوں مگر علماء کے بقول ایسا نکاح نکاح ہی نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اولاد ولدالزنا کہلاتی ہے یعنی ایسے لوگ خود تو گناہگار ہوتے ہی ہیں اولاد کو بھی دنیا و آخرت میں رسوا کرتے ہیں۔
اگر کوئی کسی تحریر، ڈرامے یا فلم کےذریعے ایسے نکاح یا کسی بھی حرام عمل کو ترویج دینا چاہے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہے اور کتنے ہی دلائل کیوں نہ دے۔ یقین مانیے وہ حرام حلال ہرگز ہرگز نہیں بن سکتا۔
نبی صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: "حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔” (صحیح بخاری 2051)
"حلال و حرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے پس جو شخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کر لیا اور جو شبہ میں ڈالے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں۔” (صحیح بخاری 2439)
اللہ تعالی کے تمام احکامات ہماری بہتری کیلئے ہی ہیں، اگر کوئی مسلمان اس پہ یقین نہیں رکھتا تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے کیونکہ مسلمان کا مطلب ہی مکمل اطاعت کرنے والا ہے۔
کچھ سال پہلے کسی چینل کی شاہ رخ خان کی زندگی پہ بنائی گئی ڈاکیومینٹری دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان کی اہلیہ بھی ہندو ہیں چنانچہ ان کے بچے پوجا پاٹ کر رہے تھے اور مورتی کے ساتھ ایک قرآن پاک پڑا تھا۔ جب بچوں نے پوجا شروع کی تو خان نے بسم اللہ پڑھی۔ میری ہنسی چھوٹ گئی کہ اللہ کے نام کے ساتھ شرک کی شروعات کر کے آپ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ اللہ تعالی کو، اپنے آپ کو یا دنیا کو؟ اللہ کو یکتا و واحد الہ ماننا اسلام کی بنیادی شرط ہے اور اس کی ذات و صفات میں کسی کو شریک سمجھنا شرک ہے جو انسان کو کافر بنا دیتا ہے۔
جب بھی کوئی مسلم غیرمسلم کے ساتھ شادی کرتا ہے تو پیدا ہونے والے بچوں کو وہ مسلمان نہیں بنا سکتا اور اگر ایسا کرنا چاہے تو شادی برقرار نہیں رہتی۔ جس چیز کی بنیاد ہی درست نہ ہو اس کا انجام بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یاد رکھیے اسلام میں لو جہاد کا نہ کوئی تصور ہے نہ ہی گنجائش۔ ہاں! اگر کوئی شخص اسلام کے مطالعے کے بعد اپنے ہوش و حواس میں اور مکمل رضامندی سے مسلمان ہو جائے تو وہ مرد یا عورت کسی بھی مسلمان سے شادی کے لیے آزاد ہے۔ پولیس، خاندان برادری یا کسی بھی شخص کو اس کے فیصلے پر اعتراض کا کوئی حق نہیں۔
لیکن اگر واقعی ہی زور زبردستی سے کسی کو اسلام قبول کرنے پہ مجبور کیا جائے تو یاد رکھیے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: "دین میں جبر نہیں۔” (البقرہ 256)