بلاگزتعلیم

نمبروں کی بارش: ہم نالائق تھے یا آج کے بچے بہت ہی ذہین ہیں؟

انیلا نایاب

کیا ہم بہت نالائق ہوا کرتے تھے یا آج کے بچے بہت ہی ذہین ہیں یا نمبرز دینے والے مہربان ہو گئے ہیں۔ کچھ سال پہلے ہی کی تو بات ہے جب میٹرک کا نتیجہ ہوتا تو بچے کیا والدین بھی وہ دن پریشانی میں گزارتے، رات کو نیند نہیں آتی تھی کہ کہیں صبح رزلٹ خراب نا آئے یا بچہ فیل ہی نا ہو جائے۔

اور واقعی میں ہی جب رزلٹ آتا تو 40 یا 42 فیصد ہی آتا اور زیادہ تر بچے انگریزی اور ریاضی مضمون میں فیل ہوتے۔ لیکن آج کل اور خاص کر کورونا کے بعد پاس تو پاس تمام طالب علموں پر نمبروں کی بارش ہوتی ہے۔

حالیہ پشاور بورڈ کے میٹرک کے رزلٹ میں سائنس گروپ میں جن طالبات نے ٹاپ کیا ہے انہوں نے 11 سو میں سے 1089 نمبر حاصل کئے ہیں یعنی صرف 11 نمبر کم لئے ہیں۔ ایک طالبعلم نے گیارہ سو میں سے 1075 نمبر لیے کیونکہ 25 نمبرز حفظ کے ہوتے ہیں، اس طرح اس طلبعلم نے 1100 میں سے 1100 نمبرز حاصل کیے۔

اب یہ بات قابل قبول کیا یہ بات ماننے والی ہی نہیں ہے۔ بوری بھر بھر کر نمبر لینے والوں کا مقابلہ جاب میں ان سے ہوتا ہے جنہوں نے میٹرک میں 700 یا 800 بھی مشکل سے لیے ہوتے ہیں، وہ بے چارے اب اچھی نوکری کے لیے در در کی ٹھوکرے کھاتے پھر رہے ہیں۔

دوسری اہم بات، فیل ہونے کا جو ڈر ہوتا تھا اب وہ بھی مکمل ختم ہو گیا ہے، اب محکمہ تعلیم کے احکامات کے مطابق کوئی بچہ فیل نہیں ہوتا۔

ایک وہ زمانہ تھا جب پوری رات نیند نہیں آتی تھی اور پیٹ میں درد رہتا تھا، زیادہ نمبر کیا فیل ہونے کا ڈر! کیونکہ پرچے چیک کرنے والے اور بورڈ میں بیٹھے لوگ کسی کو بھی نہیں بخشتے تھے اور جیسے اور جتنے بھی نمبرز آتے لوگ شکر ادا کرتے تھے۔ اب تو تمام طالب علموں کو پہلے سے ہی پتہ ہے کہ فیل تو وہ ہوں گے نہیں اس لئے پڑھائی پر بھی اس طرح توجہ نہیں دیتے جس طرح کبھی دی جاتی تھی۔

علم کی روشنی کی بدولت انسان میں اچھے برے حق و باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے، انسان کے اخلاق، عادات و اطوار حتی کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے شعور سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی، لیکن علم بغیر عمل کے بے کار ہے۔

علم حاصل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ڈھیر سارے نمبر لے کر ڈگریاں حاصل کریں بلکہ علم حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ انسان میں شعور پیدا ہو جائے۔

ہم ہر جگہ ڈگری لے کر نہیں گھومتے بلکہ ہماری عادات، اخلاق اور شعور سے ہی اگلے بندے کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہاں واقعی یہ بندہ تعلیم یافتہ ہے۔

کچھ سالوں سے ایسا ہوتا آ رہا ہے کہ میٹرک کا رزلٹ ہو یا پھر ایف اے ایف ایس سی کا، بچے پورے نمبر کیا ٹوٹل نمبرز سے دس یا بیس نمبر زیادہ لیتے ہیں، کیا واقعی میں یہ بچےحد سے زیادہ لائق ہیں اور ان کے پرچوں میں ذرا سی غلطی بھی نہیں ہوتی، ہر انسان سے تھوڑی بہت غلطی لازمی ہوتی ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ ان چند سالوں میں بے حد ذہین لوگ پیدا ہو گئے ہیں یا پھر ان کو لائق استاد ملے ہیں جو کچھ سالوں پہلے ہمیں نہیں تھے۔ ہو سکتا ہے ہمارے مقابلے میں آج کل کے اساتذہ محنت زیادہ کرتے ہوں گے۔

یہ ڈھیر سارے نمبر لینے والے طالبعلم مستقبل کے ڈاکٹر، انجینئر اور کئی ایسے بڑے شعبوں سے وابستہ ہوں گے، کیا وہ ڈاکٹر بن کر مریضوں کا علاج کر سکتے ہیں، اچھے انجنیئر بن کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button