مذہب تبدیلی کے بعد پسند کی شادی کا معاملہ، بونیر میں سکھ اور مسلمان آمنے سامنے
لڑکی کو دارلامان بھیج دیا گیا
شہزاد نوید
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر کے علاقے پاچا کلے پیربابا میں 25 سالہ سکھ خاتون کی مسلمان لڑکے سے شادی کے بعد علاقے کی صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے۔ سکھ برادری نے جبرا مذہب تبدیلی کروانے کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاج کیا اور پیر بابا کی مرکزی شاہرائوں کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کیا۔ دینہ کماری نے حزب اللہ سے نکاح کیا جس پر لڑکی دینہ کماری کے والدنے پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرواتے ہوئے بتایا کہ "لڑکی کو اغوا کر کے جبرا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے اور پھر کورٹ میرج کی گئی۔ انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ لڑکی کو جلد از جلد خاندان کے حوالے کیا جائے۔” جبکہ دینہ کماری نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ہے کہ "وہ عاقل اور بالغ ہے اور اس نے اپنی مرضی سے دین اسلام قبول کرکے حزب الله سے شادی کی ہے، اسے کسی نے اغوا نہیں کیا۔”
دینہ کماری کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "میری عمر پچیس سال ہے اور میں گورنمنٹ سکول میں ٹیچر ہوں اور مجھے مکمل حق ہے کہ اپنی زندگی کس طرح جئیوں۔”
دینہ کماری اس معاملے پر کیا کہتی ہیں:
دینہ کماری کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے اسلامیات سے دلی لگاؤ تھا اور وہ اسلامیات میں سب سے زیادہ نمبر لیتی تھیں۔ اب انہوں نے دین اسلام کی تعلیمات اور احکامات سے متاثر ہو کر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا جس پر وہ بہت خوش ہیں” دینہ کماری کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان والے انہیں دارالامان بھیجنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں”
حزب اللہ کیا کہتے ہیں؟
دینہ کماری سے شادی کرنے والے حزب اللہ نے کماری کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دینہ کماری کو اسلام سے محبت ہے جس کا انہوں نے میرے سامنے کئی مرتبہ اظہار کیا۔ ان کے دین اسلام کے قبول کرنے کے بعد ہم نے شادی کی ہے، کماری کے ساتھ کسی قسم کی زبردستی نہیں کی گئی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن لڑکی کے خاندان والے اسے زبردستی واپس لے جانا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ تیار ہے اور نہ ہی میں۔ کیونکہ اب دینہ کماری میری عزت ہے اور ہم اپنی عزت کا سودا نہیں کرتے۔
سکھ برادری کا موقف
مذکورہ واقعے کے بعد سکھ کمیونٹی نے احتجاجاً مینگورہ، مردان اور ڈگر روڈ بند کر رکھی ہے۔ جہاں دینہ کماری کے والد گورچرن نے بتایا کہ میری بیٹی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول گدیذی میں پڑھاتی ہے، گزشتہ روز سکول چھٹی کے بعد اسے اغوا کیا گیا،جب سکول انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو ہمیں پتا چلا کہ وہ سکول سےغیر حاضر ہے۔ جس پر میں فوراً تھانہ پیربابا پہنچ گیا جہاں پولیس بھی مسلمانوں کے ساتھ اس سازش میں شریک تھی، ان کا کہنا ہے کہ رپورٹ درج کرنے سے قبل حزب الله نامی نوجوان نے ہمیں کورٹ میرج کے کاغذات دکھائے۔
گور چرن کا کہنا ہے کہ "وہ تیس سال سے حکومت پاکستان کا وفادار ہیں اور انہیں انصاف ملنا چاہئیے، کیونکہ ان کے بچوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے”
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ "میری بیٹی جلد ازجلد ہمارے حوالہ کیا جائے کیونکہ حزب الله نامی نوجوان نے ان کے ساتھ نکاح کرکے مسلمان کیا ہے، اور اس نوجوان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ،اگر کاروائی میں تاخیر ہوئی تو ہم ملک گیر احتجاج پر مجبور ہوں گے۔”
ضلع بونیر اور سکھ برادری
سکھ 1934 سے بونیر میں آباد ہیں اور ان کے مسلمانوں سے تعلقات مثالی ہیں تاہم یہ دوسرا واقعہ ہے جب کسی سکھ لڑکی نے اپنا مذہب تبدیل کر کے شادی کی ہو اس سے قبل سال 2017 میں غورغشتی خدوخیل بونیر اٹھارہ سالہ پریا کور نے مذہب تبدیل کرکے واجد خان سے کورٹ میرج کی تھی۔ ڈی پی او بونیر کے مطابق بونیر میں مسلمان اور سکھ کمیونٹی کے بھائی چارے کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اب عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی تو وہ مسلمان اور سکھ کمیونٹی دونوں کے فلاح اور امن کے قیام کے لیے مثبت ثابت ہوں گے۔
پولیس اس واقعہ کے بارے میں کیا کہتی ہے۔
ڈی پی او بونیر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ دینہ کماری کے خاندان نے لڑکی کے اغوا ہونے کی رپورٹ درج کی اور پولیس نے لڑکی کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے جبکہ اس ضمن میں تاحال کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔
ڈی پی او کا کہنا ہے کہ لڑکی نے ایم اے انگریزی کی ہے اور پچیس سال کی عمر ہے اس صورتحال میں کوئی بھی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتا اور دینہ کے پاس نکاح نامہ موجود ہے ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس معاملے کو عدالت بھیج دیا ہے اور مزید کارروائی عدالت کے حکم کے مطابق ہو گی۔
دینہ کماری نے واضح کہا تھا کہ اُسے دارالامان نہیں جانا تاہم ضلعی انتظامیہ نے سکھ کمیونٹی سے مذاکرات کے بعد دینہ کماری کو تحفظ کے پیش نظر دارالامان میں بھیج دیا گیا، جہاں وہ عدالتی فیصلے تک رہیں گی اور پھر عدالتی فیصلے کے بعد ان کو متعلقہ فریق کے حوالہ کیا جائے گا، اس صورتحال میں لڑکے کے خاندان کا کہنا ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے میں لڑکی کو دارالامان سے نکال کر اُن کے حوالے نہ کیا گیا تو وہ اپنی پوری قوم کو سڑکوں پر لے آئیں گے۔