خواتین اگر گھریلو کام کاج کا معاوضہ لینا شروع کر دیں، تو؟
رعناز
آج کل انسٹا گرام بہت مقبول ہے۔ اس پر وقت اچھا گزرتا ہے۔ کل ایک مشہور امریکی صحافی کی انسٹا گرام ریل دیکھی جس میں وہ اپنے بچے کا ڈائیپر تبدیل کرتا ہوا نظر آیا۔ اس کی بیوی بھی ایک صحافی ہے۔ اس کی ریل سے زیادہ دلچسپی مجھے اس پر لکھے مداحوں کے کمنٹس سے تھی۔ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا اپنے ہی بچے کی دیکھ بھال کرنے پر حسب معمول تعریف کے ڈونگرے برس رہے ہوں گے کہ کیسا مثالی شوہر ہے جو بیوی کی مدد کر رہا ہے یا پھر اسے بھی عورتوں کی طرح اس کی ذمہ داری سمجھا جائے گا۔
آپ بتائیے، آپ کے ذہن میں پہلے کیا خیال آیا؟
میرے ذہن میں تو جو خیال آیا وہ یہ تھا کہ کیا مرد کا اپنے ہی بچے کی دیکھ بھال کرنا بیوی کی مدد کرنا ہوتا ہے؟ بچہ تو دونوں کا ہی ہے، دونوں ہی نوکری کرتے ہیں تو پھر یہ تمغہ امتیاز مرد کو کیوں پہنایا جا رہا ہے؟
جناب! اسے بیوی کی مدد کرنا نہیں بلکہ پرورش کرنا کہتے ہیں جو دونوں والدین کی ذمہ داری ہے۔ تعاون اور شرکت کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔
کیا عورت کا گھریلو کام اہم نہیں؟
آپ نے عمومی طور پر تو یہ سنا ہو گا کہ مرد اور عورت (میاں اور بیوی) گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ اگر دونوں میں سے ایک پہیے میں بھی کوئی خرابی ہو جائے تو گاڑی کا چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مگر کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت تو نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری، بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش بھی کرتی ہے۔ مگر اس کے برعکس مرد صرف نوکری کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ گھر کے کاموں میں عورت کا ہاتھ بٹانا اسے اپنی عزت اور انا کے خلاف لگتا ہے۔ اور اگر کر لے تو یہ مدد کرنا کہلائے گا۔
صرف صنف کی بنیاد پر ذمہ داریاں اہم یا غیراہم کیسے ہو سکتی ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ عورتوں کے کام کے اوقات مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔ مرد آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے، ورکنگ وومن آٹھ گھنٹوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داری کے ساتھ گھر کے کام بھی کر رہی ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر عورت اپنی پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریاں ساتھ نبھا سکتی ہے تو مرد کیوں نہیں؟ اگر عورت دونوں ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکتی ہے تو مرد کیوں نہیں؟ گھر کے کام کاج کرنا صرف عورت کی ذمہ داری کیوں، مرد کی بھی کیوں نہیں؟
مرد کا گھریلو کام گویا جوئے شیر لانا ہو
ایک عورت سارا دن نوکری کر کے جب تھکی ہاری گھر آتی ہے تو گھر کے کام ضرور کرتی ہے۔ اپنے بچوں اور شوہر کی دیکھ بھال میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اگر اتنے مصروف حالات میں مرد کو گھر کا ایک چھوٹا سا کام کرنا پڑے تو اس پر بھی اسے شرم محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً اگر مرد دن میں ایک مرتبہ اپنے ہی بچے کا ڈائپر تبدیل کر لے تو اسے ایسے سراہا جائے گا جیسے کسی ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرانے جیسا کوئی معرکہ سرانجام دے دیا ہو۔
ارے بھئی یہ کام تو عورت دن میں دس بیس مرتبہ کرتی ہے۔
کام صرف عورت کی ذمہ داری کیوں سمجھی جاتی ہے مرد کی کیوں نہیں سمجھی جاتی؟ اگر وہ بچوں یا گھر کے کاموں میں بیوی کا ہاتھ بٹا رہا ہے تو یہ کوئی مدد یا احسان نہیں کر رہا بلکہ اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ کیونکہ عورت کسی پڑوسی کا بچہ گھر نہیں لے کے آئی کہ جس کا ڈائپر اس کا شوہر تبدیل کر کے گویا کسی پے احسان کر رہا ہے۔ یہ اس کا اپنا ہی بچہ ہوتا ہے۔
رن مرید کیا ہوتا ہے؟
اگر کوئی مرد امور خانہ داری میں ہاتھ بٹا دے تو لوگ رن مرید یا جورو کا غلام کہہ کر اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔
مجھے ہمیشہ یہ بات محظوظ بھی کرتی ہے اور ساتھ ہی دکھ بھی دیتی ہے کہ لوگ کیسے مرد کے کام نہ کرنے کو یعنی دوسرے الفاظ میں ناکارہ ہونے کو گلیمرائز کرتے ہیں اور دوسری طرف کام کرنے پر یعنی کارآمد ہونے پر طعنے دیتے ہیں۔
اگر گھریلو کاموں کے ساتھ اس کی معاشی اہمیت جوڑ دی جائے تو کیا پھر بھی یہ لوگ ایسے ہی مذاق اڑائیں گے۔
میں لوگوں کی ایسی سوچ کو پست اور فرسودہ سمجھتی ہوں کہ جن کی نظر میں عورت کا ہاتھ بٹانے پر مرد رن مرید بن جاتا ہے۔ اسے اس قسم کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ لہذا ان طعنوں سے بچنے کے لئے بھی مرد عورت کے کام کاج کرنے سے مجبوراً انکاری ہو جاتا ہے۔
سوچیں، اگر نوکری کے ساتھ عورتیں گھر کے کام کاج کا معاوضہ لینا شروع کر دیں تو معاشی طور پر مزید کتنی مستحکم ہو سکتی ہیں۔ مگر وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔
تو جناب اپنے ہی گھر یا بچوں کی دیکھ بھال مرد کی ذمہ داریوں میں بھی شامل ہے۔ اگر ایک مرد گھر میں پانی کا گلاس اٹھائے گا یا اپنے بچے کو دودھ کی فیڈر بنا کے دے گا تو اس کی عزت میں کوئی کمی نہیں ہو گی بلکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے والا مرد کہلائے گا۔
ناکارہ مرد ہونے سے کارآمد رن مرید ہونا بہتر ہے۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ امور خانہ داری اور دیکھ بھال کے کام عورت اور مرد برابری سے کریں؟
رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔