لائف سٹائل

لکی: پارک میں خواتین کو زبردستی طبع تفریح سے منع کرنے والا ملزم گرفتار

غلام اکبرمروت

لکی مروت میں یوم آزادی پر خواتین کو تفریحی پارک میں طبع تفریح سے منع کرنے والا مبینہ ملزم گرفتار کر لیا گیا۔

ٹی این این کی رپورٹ کے مطابق کل یوم آزادی کے موقع پر جب ایک جھولے (کشتی) میں کچھ خواتین سوار ہو رہی تھیں تو نقیب اللہ اباخیل نامی ایک جوان نے اس عمل کو پشتون روایات کے منافی قرار دیتے ہوئے جھولے کے منتظم سے خواتین کو اتارنے کا کہا جس پر منتظم نے کہا کہ یہ خواتین خود آئی ہیں میں انہیں منع نہیں کر سکتا جس کے بعد اس نوجوان نے جذبات میں آ کر خواتین کو زبردستی جھولے سے اتار دیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ یہ جوان اس وقت فیس بک پر لائیو ویڈیو بھی چلا رہا تھا جس میں واضح طور پر پولیس اہلکار وہاں موجود دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ اس پورے عمل سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس کے حق میں اور اس کے خلاف لوگ بول پڑے، کوئی اس اقدام کو اچھا، پشتون اور اسلامی روایات کے عین مطابق قرار دیتا رہا تو بعض نے اس اقدام کو قابل مذمت قرار دیا۔

کرنل (ر) امیراللہ مروت

اس حوالے سے پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے کرنل (ر) امیراللہ مروت نے بتایا کہ آج اس واقعہ کے بارے میں علم ہوا تو بہت زیادہ دکھ پہنچا کہ ہم اپنے پشتون معاشرے میں خواتین بالخصوص پردہ کرنے والی خواتین کو عزت اور مقام دیتے ہیں جبکہ کل نئی نسل نے انتہائی غلط کام کیا کہ پردہ دارخواتین پر آوازیں کسیں، ”میں ضلعی انتظامیہ لکی مروت سے سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کرتا ہوں۔”

نو منتخب چیئرمین تحصیل لکی مروت شفقت اللہ خان نے ٹی این این کو بتایا میں اس واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہوں اس کی تحقیقات کریں گے، اگر اس پارک کو فیملی پارک کا نام دیا ہے تو اس میں مردوں کو داخل ہونے کی اجازت کیوں دی گئی، اس سلسلے میں پارک انتظامیہ کے خلاف بھی اقدام اٹھائیں گے، ہماری بہنوں اور بیٹیوں کا بھی سرکاری وسائل پر حق ہے انہیں صحت مندانہ ماحول فراہم کرنے کیلئے مثبت اقدامات اٹھائیں گے، جب تک ہم اپنی بچیوں کو مناسب ماحول فراہم نہیں کریں گے تب تک صحت مند معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔

لکی مروت پولیس کے ترجمان شاہد حمید سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ پولیس کی موجودگی میں یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور پولیس نے اب تک کیا کاروائی یا اقدامات اٹھائے ہیں تو انہوں نے واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی پی او لکی مروت سے مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا۔

بعدازاں ڈی پی او لکی مروت ضیاء الدین احمد کے نوٹس پر ڈی ایس پی لکی اقبال مہمند کی زیر نگرانی، ایس ایچ او دمساز خان نے ملزم نقیب اللہ ولد ظاہر شاہ سکنہ اباخیل کو ٹریس کرتے ہوئے گرفتار کر لیا اور مقدمہ درج کر کے حوالات منتقل کر دیا۔

میڈیا کو جاری اپنے بیان میں ڈی پی او کا کہنا تھا کہ اس طرح کے رویے ناقابل برادشت ہیں، کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ خواتین سے بدتمیزی کرے، ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔”

گرفتاری کے بعد پولیس نے ملزم نقیب اللہ کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں اس نے اپنے فعل پر ان خواتین سے معافی مانگی اور ساتھ دیگر لوگوں کو بھی نصیحت کی ہے وہ ایسی ویڈیوز بنانے سے گریز کریں۔

اس سلسلے میں پشتانہ مترقی لیکوال (پشتون ترقی پسند مصنفین) کے صوبائی صدر اور سینئر صحافی گوہر وزیر نے ٹی این این کو بتایا کہ بنوں فیملی پارک کے خلاف اٹھنے والی افواہ معاشرے کے اجتماعی شعور، منفی اور فرسودہ ذہنیت کا اظہار ہے، ”بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بہن، بیٹی، بیوی یا ماں کو بینظیر انکم سپورٹ اور صدائے امن پروگرام سے پیسے لینے سے انکار کیا ہو اور انہیں بتایا ہو کہ اس سے میری پگڑی میرے سر سے اتر جائے گی اور میرا پشتو (غیرت) کا لیول کم ہو جائے گا لیکن ایسا ہرگز نہیں کیونکہ ان پروگراموں سے ان کے گھر نقد رقم اور فائدہ آ رہا ہے اور ان کی دلچسپی اسی سے جڑی ہوئی ہے، ان لوگوں کا اسلامی چیلنج، انسانی جذبہ اور غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب یہ اپنی بہن بیٹیوں کو چوپایوں کی طرح بیچتے ہیں؟ اس وقت ان لوگوں کی غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب وہ اپنی بہن، ماں، بیٹی اور بیوی کاحصہ جائیداد میں نہیں دیتے؟ میں ان ہی پشتونوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ خواتین کو انسان سمجھتے ہیں؟ گھروں میں جانوروں سے بھی بدتر زندگی یہی خواتین گزارتی ہیں کیونکہ ہمارے مرد گھروں میں خواتین پر تشدد اور گالم گلوچ کو عین مردانگی سمجھتے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قاضی فضل قادر شہید پارک اور فیملی پارک میں زمین و آسمان کا فرق ہے، فیملی پارک میں صرف فیملیز ہی جاتی ہیں تو ان کے ذہنی مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے اور ان کا سخت لہجہ اور منفی رویہ کم ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات اکثر اوقات ہوتے رہتے ہیں۔ لکی مروت سے متصل بنوں میں لیڈی پارک ایک پرانا پارک ہے جو خواتین استعمال تو نہیں کرتیں لیکن قائم ان کے نام پر ہے۔ سال 2003 میں ڈسٹرکٹ جیل بنوں کو شہر سے باہر منتقل کر کے وہاں قاضی فضل قادر شہید کے نام سے پارک تعمیر کیا گیا جس میں ایک حصہ خواتین کیلئے مخصوص تھا لیکن بعدازاں اسے ختم کر دیا گیا۔ بنوں میں کئی سرکاری اور غیرسرکاری پارک ہیں لیکن یہ سب پبلک پارک ہیں ان میں کوئی فیملی پارک نہیں البتہ بنوں کینٹ کے اندر فیملی پارک قائم کیا گیا ہے لیکن اس کے خلاف بھی بنوں کے عوام نے ایک مہم شروع کی ہے کہ خواتین کا پارک میں جانا پشتون روایات کے خلاف ہے لہذا اس پر پابندی لگائی جائے کیونکہ اس سے فحاشی اور بے حیائی پھیلتی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ پاکستان کی 75ویں جشن آزادی صرف لکی مروت اور بنوں میں ہی قابل اعتراض واقعات کا باعث نہیں بنا ہے بلکہ لاہور میں مینار پاکستان کے پاس بھی خواتین کو چھیڑا گیا، اور پولیس وہاں بھی موجود تھی لیکن کچھ نہیں کیا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button