قیامِ پاکستان، ہجرت کی کہانی میرے نانا نانی کی زبانی
رمل اعجاز
ہر سال اگست کا مہینہ آتے ہی ہر طرف جشن آزادی منانے کا جوش دیکھا جاتا ہے، کہیں بازاروں میں سٹال تو کہیں سڑکوں پر باجے اور جھنڈوں کی دکانیں، کہیں درزیوں کے پاس سبز کپڑوں کی بھرمار تو کہیں کہیں بچوں کی شور مچاتی سائیکل اور سبز پتنگیں۔
یہ جوش اور جذبہ ہر سال دیکھنے کو ملتا ہے لیکن صرف ایک ہی مہینے میں اور اس مہینے کے بھی صرف 14 دن؟ شاید ہی کوئی جانتا ہے کہ یہ آزادی کیسے ملی؟ کہیں نہ کہیں کسی نا کسی شخص کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر آزاد نہ ہوئے ہوتے تو شاید ہمارے ہاں یہ مسائل نہ ہوتے، شاید ہمارے ہاں فرقوں میں بٹے لوگ نہ ملتے، شاید ہمارے ہاں یوں تفرقے نہ ہوتے اور ہم لوگ خوشگوار زندگی گزار رہے ہوتے۔۔۔
میں سوچتی ہوں آخر یہ سوچ کب ختم ہو گی اور کیسے ختم ہو گی اور میں ہمیشہ یہ سوچتی ہوں کہ اس سوچ کو ختم کرنے کے لئے ہم سب اپنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کر رہے ہیں؟ کون سا جذبہ کون سی ہمت کون سی طاقت لگا رہے ہیں کہ ہم لوگ یکجا ہو جائیں، ہم لوگ اپنے بزرگوں کی، اپنے آباواجداد کی، قائداعظم کی کاوشوں کی، اقبال کے خواب کی، ان سب شہیدوں کے خون کی، ترستی نگاہوں والی ماؤں کی، بیواؤں کی، یتیموں کی اور اجڑے ہوئے گھروں کی قربانیوں کو کب سمجھیں گے، کب ہمارے دلوں سے یہ خیالات مٹیں گے آخر، آزادی مل گئی تھی، سوچ آخر کب آزاد ہو گی؟
میں نے اپنی یہ سوچ اپنے نانا علی محمد عاصی کے سامنے رکھی کیونکہ انہیں آج بھی آزادی کی یادیں نہیں بھولیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیونکہ برصغیر میں مسلمان اقلیت میں تھے ان کو غیرمسلموں نے تنگ کیا، اکثریت کی جانب سے بہت ستایا جاتا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں شفٹ ہو گئے۔ اس دوران بارشیں بہت ہو رہی تھیں اور جس جگہ کو محفوظ سمجھا جاتا تھا وہیں پر کیمپ لگا کر مسلمانوں کو تحفظ دیا جا رہا تھا۔ جو حکومتوں کا آپس میں معاہدہ طے ہوا تھا اس کے تحت ٹرینوں، ٹرکوں اور گاڑیوں کا بندوبست کیا گیا تھا تاکہ مسلمانوں کو پاکستان تک بحفاظت پہنچایا جا سکے۔ میرے نانا ابو بار بار اس بات پر زور دے رہے تھے کہ آزادی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا اپنا گھر بار، جائیداد، یادیں، کمائی، جمع پونجی اور سب کچھ چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانا آسان نہ تھا۔
نانا کے بقول ”جب ٹرین آئی اور نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا تو مجھے یاد ہے کہ وہ بھر چکی تھی بہت بھر چکی تھی اور وہاں پر بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی تو پھر ہمیں ٹرین کی چھتوں پر بٹھایا جا رہا تھا جس پر چارپائیاں الٹی کر کے لوگوں کو بٹھایا گیا جو کہ بہت خطرناک تھا۔ پریشانی، گہما گہمی، بارشیں اپنا سب کچھ چھن جانے کا دکھ اور ساتھ ساتھ دل میں یہ ڈر کہ ہماری جان اور عزتوں کی حفاظت کیسے ہو گی؟ کہاں ہو گی؟ اور ہم کس حال میں کہاں پہنچیں گے؟ یہ سوچیں لے کر ہزاروں کی تعداد میں لوگ چل دیئے۔ ٹرین کی چھت پر بیٹھے اللہ معاف کرے پورے راستے یہی آواز آتی گئی کہ وہ گر گیا فلانا گر گیا اب وہ گر گیا اور وقتاً فوقتاً اٹھنے والی ان آوازوں کے ساتھ ہم سفر کرتے گئے۔
مجھے اچھی سے یاد ہے کہ ڈبل لائن کوئی جگہ تھی راستے میں وہاں میں نے دیکھا کہ سٹیم انجن اور ڈبے پہلو کے بل الٹے پڑے ہوئے تھے، بعد میں جب ملاقاتیں ہوئیں میرے ننھیال سے تو پتہ چلا کہ اس میں کرتاپور کے زیادہ لوگ تھے، وہ ٹرین جب آ رہی تھی تو اس کی پٹڑی کے نٹ بولٹ کسی نے کھول رکھے تھے، جونہی گاڑی آئی، الٹ گئی۔ نجانے کتنی جانیں گئیں اور کتنے زخمی ہوئے؟
جب ہم پاکستان پہنچے اور ٹرین لاہور میں رکی تو وہاں پر تھوڑا بہت راشن کسی نے تھما دیا۔ اور پھر آگے سیدھے چل پڑے۔ اس وقت یہی طریقہ کار تھا کہ اگر چار ٹرینیں شیخوپورہ اتری ہیں تو اگلی چار فیصل آباد اتریں گی اور اگلی چار گوجرہ۔ اسی طرح وہ لوگوں کو آگے تقسیم کرتے جاتے تھے۔ ہماری ٹرین جب گوجرہ پہنچی تو ایک جگہ سے گزر رہی تھی وہاں ہسپتال کے کھلے وارڈ تھے جہاں پر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگوں کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا اور وہ تڑپ رہے تھے۔ بعد میں اس کے بارے میں پتہ لگا کہ راستے میں پاکستان آتے ہوئے ٹرین کسی جگہ رکی تو وہاں پر غیرمسملوں نے سواریوں کو کھانا کھلایا، لوگوں نے بہت واہ واہ کی کہ کتنے اچھے لوگ ہیں کھانا کھلا رہے ہیں لیکن اس کھانے میں شیشے کی کرچیاں یعنی کے شیشے کو پیس کر ڈالا گیا تھا۔ جن غریبوں کے نصیب وہ کھانا ہوا وہ تو اندر سے کٹ گئے ان کی انتڑیاں کٹ گئی تھیں اور مجھے آج تک ان کے چہرے یاد ہیں وہ کس تکلیف میں مبتلا تھے۔”
نانا ابو کا کہنا تھا کہ ان کا سب سے چھوٹا بھائی ماں کی گود میں تھا، ”جب ہم لوگ یہ سفر طے کر کے آئے اور جس وقت ٹرین پلیٹ فارم پر رکی تو جھٹکے سے میری ماں ٹرین کی چھت سے پلیٹ فارم پر منہ کے بل آ گری۔ اللہ معاف کرے جنہوں نے پاکستان کو بنتے دیکھا ہے ان کو تو یہ اچھے سے معلوم ہے کہ پاکستان کی کیا قیمت ادا کی گئی ہے۔
جو لوگ سڑک کے راستے آئے، اپنی گاڑیوں میں یا گاڑیاں کروا کر تو راستے میں ان کو غیرمسلموں نے لوٹ لیا، کسی کو اغوا کر لیا یا زیور اور پیسے چھین لیے۔ کچھ کو وہیں پر مار دیا کچھ کو لوٹ لیا کچھ کی بچیوں کو اغوا کر لیا۔ جب بھی آزادی کا یہ قصہ یاد آتا ہے تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے اتنی قربانیاں اتنی تکالیف کے بس۔۔۔”
یہ باتیں بتاتے ہوئے نانا کی آنکھیں بھر چکی تھیں اور میں دیکھ رہی تھی کہ وہ انتہائی مشکل سے اپنے سفر کی داستان سنا رہے ہیں۔ نانا ابو روتے روتے ہچکیاں لینے لگے لیکن وہ رکے نہیں اور بتاتے رہے۔
نانا ابو نے بتایا کہ اس کے برعکس پاکستان میں سیٹلمنٹ کا ڈیپارٹمیٹ جو کہ لوگوں کے لئے کام کر رہا تھا اور لوگ ان سے اپنی وصولیاں پوری کر رہے تھے جو کچھ وہ ہندوستان میں چھوڑ کر آئے تھے وہ لوگ یہاں پر کلیم کر رہے تھے۔ ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ ہمارے والد نہیں تھے۔ میں چوتھی پانچویں میں پڑھتا تھا جب سیٹلمنٹ والوں نے ہم سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تاکہ آپ کلیم کروا سکیں کی لیکن میں سوچتا ہوں کہ ان بدبختوں کو یہ سمجھ نہ آئی کہ ہم تو اپنی جان کو بچا کے وہاں سے نکلے تھے ہم ثبوت کس ٹائم اکٹھے کرتے۔
ماں تھی وہ بھی ان پڑھ تھی۔ یتیم بچے ہمیں کچھ علم نہ تھا کہ آگے کیا کرنا ہے اور کس طریقے سے چلنا ہے کس طرح سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونا ہے۔ والدہ کے کہنے پر ہم گوجرہ کے ساتھ گاؤں چلے آئے اور ان کی یہ سوچ تھی کہ گاؤں جا کر کوئی زمینوں کا کام شام دیکھ لیں گے اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد سے محنت اور مشقت یہی سب زندگی کا حصہ رہا۔
حالت یہ تھی کہ کوئی کچھ اپنے ساتھ نہیں لا سکتا تھا نہ کوئی پتہ نہ کوئی سامان نہ کوئی روپیہ پیسہ۔ بس جو کپڑے پہنے تھے اس کے علاوہ بیگ میں اگر ایک دو جوڑے ڈال لیے تو ٹھیک ہے ورنہ کچھ نہیں کیونکہ تاثر یہی مل رہا تھا کہ ہم واپس آ جائیں گے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ عام لوگوں کو صرف اتنا ہی پتہ تھا کہ ہم جا رہے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد ہم نے اپنے گھروں کو لوٹ آنا ہے جو طاقتور تھے وہ تو اپنے زور بازو پر آرام سے ہجرت کر کے آ گئے تھے لیکن اکثریت جو تھی وہ خوار ہوئی۔ بعض پڑھے لکھے صاحب حیثیت لوگوں نے اپنے ہندوستان والے گھر پاکستان میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ تبدیل بھی کیے یعنی کہ ان کو اپنی جمع پونجی تھما کر ان کی خود رکھ لی ایسے لوگ نقصان میں نہیں رہے ان کے لئے کافی آسانی رہی لیکن ایسے صرف چند لوگ تھے جو کہ پڑھے لکھے تھے سمجھ دار تھے اور جن کے پاس وسائل تھے۔”
نانا ابو کا کہنا تھا کہ یہاں تو لوگوں کو پاکستان بنا بنایا مل گیا، کھانے پینے کے اللہ نے ان کے لیے راستے ہموار کر دیے ان کو پیسہ جائیداد سب دے دیا اس لیے وہ آج بھی شکوہ کرتے ہیں شکایت کرتے ہیں اپنے دل میں بغض لیے بیٹھے ہیں لیکن وہ کیا جانتے ہیں کہ یہ پاکستان کس قدر قربانیوں کا نتیجہ ہے اور یہ کتنا قیمتی ہے۔
نانا کہتے ہیں کہ یہ دستان کافی طویل ہے کبھی فرصت ہو گی تو بیٹھ کہ پوری دستان سناﺅں گا، پاکستان بننے کیلئے جو قربانیاں جھیلی ہیں وہ آج کی نسل کو شاید ہی معلوم ہوں۔ اس کہانی کا ایک ایک لمحہ بہت دردناک ہے۔ یہ اتنا قیمتی اثاثہ ہے کہ شاید میں کبھی بیان کر پاؤں۔ اللہ سمجھ دے عقل دے اس کی قدر کرنی چاہیے۔
میری نانو تحسین اختر الزائمر کی مریضہ ہیں جو کہ ایک دماغی بیماری ہے جس سے انسان سب کچھ بھول جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی شناخت، اپنی پہچان، اپنا نام، اپنا وجود یعنی کہ اپنے آپ سے جڑی ہر ایک بات وہ بھول جاتا ہے۔ آج اس مرض میں مبتلا میری نانی ابھی بھی ہمیں بچپن کی کچھ باتیں ضرور بتاتی ہیں۔ ماضی قریب کو پوری طرح سے بھول چکی ہیں بچپن کے کچھ دردناک واقعات، کچھ تکلیف دہ لمحات ان کے ذہن میں مانو نقش ہو چکے ہیں۔
برصغیر سے آزادی کے متعلق وہ بتاتی ہیں کہ ہم بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے ان کا سب سے چھوٹا بھائی ان کی ماں کی گود میں تھا جب ہندوستان سے پاکستان آنا پڑا۔ سننے میں یہ بات بہت آسان لگتی ہے لیکن جنہوں نے قربانیاں دی تھیں اس کا درد وہی جانتے ہیں کہ چھوٹا سا بیٹا گود میں لیے ان کی ماں پریشان حال بے یار و مددگار خالی ہاتھ ہندوستان سے جب پاکستان کا رخ کرنے لگی اپنا سب کچھ چھوڑ کر جو کہ پوری عمر جوڑا تھا کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔
نہیں معلوم تھا کہ پاکستان میں آنا، بچوں کا پیٹ پالنا، اس بھگدڑ میں گزر بسر کرنا بہت مشکل فیصلہ تھا، ان کی ماں نے نکلتے نکلتے ایک عدد سونے کی نتھلی اپنی جراب میں ڈال لی یہ سوچتے ہوئے کہ کچھ تو ہو گا جس سے بچوں کا پیٹ بھر جائے گا۔ وہ نتھلی کافی بھاری تھی بچے کو گود میں لیے آئے باقی بچوں کو اپنے ساتھ چلاتے ہوئے، خیموں میں تکالیف جھیلتے ایک وقت آیا جب وہ جراب میں تکلیف دینے لگی، پریشانی میں ماں نے وہ نتھلی جراب سے نکال باہر پھینک دی۔
نانی کے مطابق ان کے والد ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے یہ سوچ کر کہ بچوں کو بھجوا کر وہاں پر پڑا سامان جتنا ہو سکا وہ اپنے ساتھ لے آئیں گے۔ لیکن یہ صرف ایک سوچ تھی ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ کئی میل پیدل سفر کرنے کے بعد جب ایک خیمے میں لوگ رکے تو وہاں پر میری نانی کی دادی کا انتقال ہو گیا۔ میری نانی بتاتی ہیں کہ ہم بہت چھوٹے تھے لیکن آج بھی یاد ہے کہ ہم لوگ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے بہت بے بس تھے نہ چھت تھی نہ چھاؤں اور ایسے میں کسی اپنے کو کھونا بہت ہی مشکل تھا۔ کچھ گھنٹے میت کے سرہانے بیٹھے سوچتے رہے کہ آخر اب کرنا کیا ہے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو وہیں پر چھوڑ کر آگے چل دیتے ہیں اور ہم یوں ہی اپنی دادی کو کھلے آسمان تلے چھوڑ کر آگے چل دیے۔
یہ بزرگ اپنے سینے میں ایسی کئی تکالیف لئے بیٹھے ہیں انہیں آج بھی وہ تمام مسائل اور صعوبتیں یاد ہیں جو انہوں نے خود برداشت کئے اور لٹے پٹے قافلوں کے ساتھ وہ پاکستان آئے، اس سرزمین کو آباد کیا اور آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔