لائف سٹائل

حکومت کا شمالی وزیرستان میں دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کے لئے جرگے کا اعلان

شاہین آفریدی

وزارت دفاع کی جانب سے شمالی وزیرستان میں قومی جرگے کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے 16 رکنی کمیٹی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے یہ جرگہ ایسے حالات میں بلایا گیا ہے جب شمالی وزیرستان میں اتمانزئی قبیلے کی جانب سے گزشتہ 27 دن سے علاقے میں امن کی خاطر احتجاج ہو رہا تھا جبکہ اس کے علاوہ شمالی وزیرستان کے 8 مختلف علاقوں میں سیاسی، سماجی اور قبائلی عمائدین کی جانب سے احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے۔ ان احتجاج کرنے والوں کا مین مطالبہ علاقے میں امن کو برقرار رکھنا تھا۔

شمالی وزیرستان میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کئی بار ضلعی انتظامیہ، فوج اور مختلف اداروں کی جانب سے مذاکرات کیے جا چکے ہیں لیکن کوئی نتائج سامنے نا آ سکے۔ مقامی عمائدین کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنماؤں، عدلیہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے یقین دہانی نا کرائی جائے تب تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

شمالی وزیرستان کے عیدک سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن زاہد داوڑ کے مطابق حکومت کی جانب سے پہلے بھی ایسے مذاکرات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، صوبائی حکومت، گورنر، وزیراعلی اور اعلی حکام کی جانب سے پہلے بھی جانی خیل قوم کے ساتھ مذاکرات کیے جا چکے ہیں لیکن ان کے نتائج سامنے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "اب قوم متحد ہو چکی ہے اور اسی پریشر کو دیکھ کر حکومت نے مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے، علاقے میں امن کو برقرار رکھنے کے لئے متعلقہ حکام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے یہی وجہ ہے کہ اب عام لوگوں کی بھی حکومتی جرگے کی بابت منفی رائے ہے اور وہ ایسی کمیٹیوں پر یقین نہیں رکھتے، پورے علاقے میں اب بھی یہی تاثر ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ یہ کمیٹی علاقے میں امن کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کر سکے گی۔”

شمالی وزیرستان کے عیدک سے تعلق رکھنے والے پبلک ریلیشن کے طالب نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شمالی وزیرستان بشمول قبائلی علاقوں میں دہشت گرد ایک بار پھر سے منظم ہونے جا رہے ہیں، سیکیورٹی ادارے ان کو قابو کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، قبائیلی اضلاع کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔

ان کے مطابق "پاکستان کے بنائے گئے دہشت گرد افغانستان میں محفوظ ہیں، گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں، طالبان کی جانب سے ایجنڈا تو واضح ہے لیکن حکومت کی جانب سے کن شرائط پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے وہ ابھی تک واضح نہیں، افغانستان سے سیف ایگزٹ کر کے پاکستان اور خاص طور پر قبائلی علاقوں میں یہ لوگ پھر سے منظم ہونے جا رہے ہیں جس کا براہ راست اثر ہم پر ہو رہا ہے اور ایک بار پھر ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔”

دوسری جانب افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی میں ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈرز کو ایسے وقت میں نشانہ بنایا جا رہا ہے جب حکومت اور طالبان کے درمیان سیز فائر ہے اور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

گزشتہ روز افغانستان میں خالد خراسانی کے جاں بحق ہونے کے بعد طالبان کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ جب کہ وقتاً فوقتاً کاروائی کرتے ہوئے بھی نظر آئے ہیں۔ عمر خالد خراسانی کے قتل کے بعد پاکستان میں امن کی خاطر مذاکرات کو بھی شدید نقصان ہو سکتا ہے۔

سینٹر ہلال الرحمان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر عمر خالد خراسانی کے ساتھ افغانستان میں مذاکرات کے دوران لی گئی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ عمر خالد خراسانی خطے میں امن کے خواہاں تھے اور امن کی خاطر اپنے وطن واپس آنے کے لئے تیار تھے۔ ان کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی تھی لیکن عمر خالد خراسانی کی موت سے اس عمل کو دھچکا لگے گا۔

دوسری جانب شمالی وزیرستان میں جاری دھرنے میں شامل لوگوں نے بھی حکومت اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ایسے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ملک زمان کے مطابق حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات اس لئے بھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے مطالبات ماننے کے قابل نہیں جس کے نتیجے میں عوام کو پیسا جا رہا ہے، حکومت کی دوغلی پالیسی پر عوام کو یقین نہیں۔

دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں جاری دھرنے کے بارے میں وزیراعظم سے بات چیت ہو گئی ہے اور یہ کمیٹی قبائلی اضلاع میں امن کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

وزارت دفاع کی جانب سے نوٹیفیکشن کے مطابق یہ جرگہ 12 اگست کو میر علی میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button