جرائم

13 سال بعد عسکریت پسندوں کا حملہ، جنت نظیر وادی سوات کو کس کی نظر لگ گئی؟

رفیع اللہ خان

سوات میں شدت پسندوں نے 13 سال بعد تحصیل مٹہ کے چپریال تھانہ پر حملہ کر کے وادی میں امن و امان کی صورتحال کو اک بار پھر مخدوش بنا دیا۔ اگلے روز مٹہ کے پہاڑی علاقے بالاسور میں پولیس اور دیگر فورسز کی عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی پیر سید سمیت چار افراد زخمی ہوئے۔ اس کے بعد سوات کا امن ایک بار پھر خراب ہو گیا اور لوگوں میں شدید تشویش اور خوف پایا جاتا ہے۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے اور بازاروں میں لوگوں کا رش بھی معمول سے کم ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ سوات کی دیگر تحصیلوں میں بھی معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر الحاج زاہد خان نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ سوال یہ ہے کہ دہشت گرد افغانستان گئے کیسے تھے؟ کس نے ان کو محفوظ راستہ دے کر فرار ہونے میں مدد کی؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آپریشن کے دوران انہیں مارا کیوں نہیں گیا تھا؟ یا انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا تھا؟

زاہد خان نے بتایا کہ افغانستان کی سوات سے براہ راست کوئی بسرحد نہیں بلکہ دیر اور باجوڑ کا بارڈر ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر بارڈر پر باڑ لگا دی گئی ہے تو پھر یہ لوگ کس طرح یہاں آئے ہیں؟ ان کو کس نے اجازت دی؟ اگر کوئی معاہدہ ہوا ہے تو اسے قوم کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا جاتا؟

زخمی ڈی ایس پی، پیر سید (فائل فوٹو)

ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر نے بتایا کہ اگر انہیں اجازت ملی ہے تو یہ اپنے گھروں میں کیوں نہیں جاتے؟ یہ لوگ اسلحہ کے ساتھ پہاڑوں میں کیا کر رہے ہیں؟ ان لوگوں نے پہاڑوں میں کیمپس کیوں قائم کئے ہیں؟ انہوں نے پولیس اور سوات انتظامیہ کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چپریال تھانے پر حملے سے پولیس اور انتظامیہ نے انکار کیا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے حالانکہ سالوں اور مہینوں سے لوگ شکایت کر رہے تھے کہ علاقے میں مشکوک لوگ آ رہے ہیں جو مقامی لوگوں کو دھمکیاں دے کر بھتہ مانگ رہے ہیں تو پولیس اور انتظامیہ اس وقت بھی کہتی تھیں کہ آپ خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

زاہد خان نے کہا کہ چپریال واقعہ کے بعد جب بالاسور میں عسکریت پسندوں نے ڈی ایس پی سمیت فوجی افسران کو یرغمال بنا لیا اور ان کی ویڈیو سامنے آئی تو سارا معاملہ کھل کر سامنے آ گیا۔ ایسے واقعات سے بلاشبہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے گا کیونکہ لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت چاہتے ہیں، صوبے کے وزیر اعلیٰ کے آبائی علاقے میں اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے اور وزیر اعلیٰ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو مجرمانہ غفلت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ظاہر سی بات ہے یہاں پہلے طالبان کے سربراہ صوفی محمد اور فضل اللہ کو ریاستی اداروں نے بٹھایا تھا،اس وقت بھی ڈی سی اور ڈی پی او امام ڈھیری جاتے تھے اور طالبان کے لئے چندہ اکٹھا کرتے تھے لہذا یہ ایک کھیل ہے جو ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، اب بھی وہی حالات ہیں لیکن مقاصد واضح نہیں ہیں، ”جب وزیر اعلیٰ اور ان کے وزیر بھتہ اور اسلحہ دے رہے ہیں تو عوام شکایت کس سے کریں؟ اب قوم اپنا فیصلہ کرے گی اور اس سلسلے میں 17 اگست کو آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی ہے جس میں تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں کے افراد شرکت کرینگے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔”

سوات میں پیش آنے والے دہشت گردی کے ان دونوں واقعات پر پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے صحافیوں سے حقائق کیوں چھپائے؟ اس حوالے سے سوات یونین آف جرنلسٹس کے صدر محبوب علی نے ٹی این این کو بتایا کہ پوری دنیا میں جہاں بھی کوئی تنازعہ رپورٹ ہو رہا ہو تو وہاں لازم ہے کہ صحافیوں کو رسائی دی جائے اور اگر رسائی نہیں دی جاتی تو انہیں معلومات یا خبر دی جائے لیکن بدقسمتی سے جو واقعہ سوات کے جس علاقے میں پیش آیا تھا نہ تو صحافیوں کو رسائی دی گئی اور نہ ہی پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے صحافیوں کے ساتھ تعاون اور مدد کی ہے، صحافیوں کو اندھیرے میں رکھا گیا اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم تھا۔

سوات یونین آف جرنلسٹس کے صدر نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کا دور ہے اس میں خبر چھپائی نہیں جا سکتی، اس سے حالات خراب ہوتے ہیں اگر صحافی کو بروقت معلومات ملتی ہیں تو اس سے پیس جرنلزم کو تقویت ملتی ہے۔

محبوب علی نے بتایا کہ سوات ایک سیاحتی علاقہ ہے اور ان دنوں ہزاروں کی تعداد میں سیاح آئے تھے جو حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد کراچی، لاہور اور اسلام آباد چلے گئے ہیں، ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں میں بھی خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور لوگ یہ گمان کر رہے ہیں کہ جو حالات اس سے قبل اس خطے میں 2008 میں آئے تھے وہ دوبارہ پیدا نہ ہو جائیں۔

سوات پولیس نے واقعات کے دو دن بعد پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ 8 اگست کو ڈی ایس پی سرکل مٹہ پیر سید خان پولیس نفری کے ہمراہ کنالہ تحصیل مٹہ کے علاقے میں سرچ آپریشن میں مصروف تھے کہ اسی اثناء دہشت گردوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع کی، فائرنگ کے نتیجے میں ڈی ایس پی مٹہ پیر سید خان زخمی ہوئے، پولیس کی جوابی فائرنگ سے دہشت گرد بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔

بیان کے مطابق فائرنگ کا واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد ڈی پی او سوا ت زاہد نواز مروت کی نگرانی میں سی ٹی ڈی، ضلعی پولیس، ایلیٹ فورس کے اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر علاقے میں سرچ آپریشن مزید تیز کر دیا اور اور زخمی ہونے والے ڈی ایس پی مٹہ پیر سید خان کو دشوار گزار پہاڑیوں سے اُتار کر فوری طور پر ریسکیو 1122 کے ذریعے سیدو شریف ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کا علاج معالجہ جاری ہے۔

دوسری جانب عسکریت پسندوں کی تلاش اور گرفتاری کے حوالے سے بیان میں بتایا گیا کہ اس مقصد کے لئے تحصیل مٹہ کے پہاڑوں اور جنگلات میں سرچ آپریشن جاری ہے۔

آئی جی خیبر پختونخوا سوات میں آپریشن کی تیاریوں میں مصروف

یہ پولیس کا موقف تھا لیکن معاملہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ مقامی لوگوں اور جاری ویڈیو کے مطابق دہشت گردوں نے ڈی ایس پی پیر سید کو زخمی کرنے کے بعد یرغمال بنا لیا تھا اور پولیس کو اطلاع دی تھی کہ جرگہ بھیجے اور زخمی پولیس افسر کو آ کر لے جائیں، جرگہ گیا جنہوں نے دہشت گردوں سے بات چیت کی اور معاملہ حل کر دیا جس کے بعد اسی وقت یعنی آدھی رات چار بجے کے قریب ڈی ایس پی کو سیدو شریف ہسپتال منتقل کیا گیا۔ دو دن علاج معالجے کے بعد آج مزید علاج کے لئے انہیں پشاور منتقل کیا گیا۔

یاد رہے کہ سوات میں 2008 میں آنے والی دہشت گردی کی لہر میں دو سو سے زائد پولیس، پانچ سو سے زائد فوج کے افسران اور جوان جبکہ تین ہزار سے زائد مقامی لوگ شہید ہوئے تھے، ان شہداء نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے اس خطے کے امن میں اپنا بھرپورحصہ ڈالا تھا جس کی بدولت یہاں کی سیاحت بھی دوبارہ بحال ہو گئی تھی اور لوگوں نے ایک نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا تھا۔

آج ایک مرتبہ پھر اس علاقے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سرکاری زرائع کے مطابق اس وقت تحصیل مٹہ کے علاقے چپریال، گٹ پیوچار، برتھانہ، برشور، کوز شور، تحصیل خوازخیلہ، تحصیل کبل، تحصیل چار باغ، تحصیل بابوزی اور ملم جبہ کے مختلف پہاڑی سلسلوں میں عسکریت پسند موجود ہیں۔ زرائع نے بتایا کہ ان دہشت گردوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور بتایا گیا ہے کہ مٹہ کے علاقے بالاسور میں انہوں نے اپنا پہلا مورچہ بھی بنایا ہے۔

اسی طرح زرائع نے بتایا کہ پولیس سربراہ آئی جی خیبر پختونخوا بھی سوات میں موجود ہیں، آپریشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں جس کو آئی جی پولیس معظم جاہ خود لیڈ کریں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button