”کرک بازار میں خواتین کی آمد سے جرائم بڑھ رہے ہیں”
ریاض خٹک
قبائلی ضلع باجوڑ کے بعد ضلع کرک میں بھی اکیلی خواتین کے بازار آنے پر پابندی لگا دی گئی۔
زرائع کے مطابق خواتین پر اس پابندی کا فیصلہ کرک سٹی کی مقامی تنظیم خٹک قومی موومنٹ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ تنظیم کا حال ہی میں ایک اجلاس ہوا تھا جس کی صدارت مدثر ایوب نے جبکہ علاقہ عمائدین اور علماء کرام کے علاوہ ڈپٹی کمشنر کرک خالد اقبال اور ایس پی انوسٹی گیشن بشیر داد نے بھی شرکت کی تھی، اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ کرک بازار میں خواتین کی آمد سے جرائم بڑھ رہے ہیں۔
تنظیم کے صدر مدثر ایوب نے کہا کہ کرک بازار میں کپڑے، شوز اور کاسمیٹکس کی دکانوں پر اکثر خواتین خریداری کے لئے آتی ہیں، بیشتر دکانداروں۔نے دکانوں میں پردے لگا رکھے ہیں جہاں خواتین خریداری کے نام پر گھنٹوں گھنٹوں گپیں ہانکتی نظر آتی ہیں جس کے اثرات معاشرے پر بہت برے انداز میں پڑ رہے ہیں، ھماری کوشش ہے کہ اگر خواتین بازار میں خریداری کے لئے آتی بھی ہیں تو بغیر محرم کے نہ آئیں، اگر کسی خاتون کے گھر میں مرد موجود نہیں ہے اور وہ بہ امر مجبوری بازار جاتی ہے تو وہ پڑوس کی کسی معمر خاتون کے ساتھ جائے اور پردے کا اہتمام کر کے اپنی ضروریات پوری کرے مگر محرم یا پردے کے بغیر بازار نہ جائے کیونکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پھیلنے کا خدشہ ہے۔”
ممتاز عالم دین مولانا شاہ جہان حقانی نے ریڈیو ٹی این این کو بتایا کہ اسلام نے خواتین کو گھر سے باہر نکلنے سے منع فرمایا ھے، اگر شرعی خاجت کے لئے جانا پڑ جاتا ہے تو اس کے لئے پردے کا حکم دیا گیا ہے، بغیر پردے کے اسلام نے پابندی لگا دی ھے جس کا حکم قرآن کریم میں واضح ہے اور خلاف ورزی کرنے پر سزا بھی تجویز کی ہے کیونکہ سارے گناہوں کی جڑ بے حیائی ہے۔
کرک شہر میں خریداری کی غرض سے آئی سعدیہ نورین نامی خاتون نے اس پابندی کے حوالے سے کہا کہ یہ ایک اچھا قدم ہے کہ خواتین کے ساتھ گھر کا کوئی فرد ہو تاکہ ان کو خریدادری میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ عزت کے ساتھ خریداری کر سکیں۔
ایک اور خاتون ںفیسہ بیگم نے کہا کہ ان کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے اور گھر کے لئے خریداری حود کریں کیونکہ ان کے خاوند محنت مزدوری کے سلسلے میں گھر سے باہر ہیں اور گھر میں ضرورت کی اشیاء لانے کے لئے انہیں حود جانا پڑتا ہے، ”آخر میں کہاں جاؤں، کون پوری کرے گا میری گھریلو ضروریات؟”
اس پابندی کے حوالے سے کئی دکانداروں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر خواتین کی بازاروں میں آمد پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو اس کے بہت برے اثرات ان کے کاروبار پر پڑیں گے کیونکہ ایک دکان کا ماہانہ کرایہ 20 سے 30 ہزار ہوتا ہے، اس کے علاوہ بجلی اور دیگر اخراجات اسی دکان سے پورے ہوتے ہیں اور ھمارے گھروں کے چولہے بھی أسی دکان سے جلتے ہیں، اگر گاہک نہیں آئیں گے تو یہ ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی۔
رضا خان نامی ایک دکاندار نے بتایا کہ وہ اور اس کا بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور روزگار نہ ملنے کے باعث مجبوراً یہ دکان کھول رکھی ہے اور گھر کی ساری جمع پونجی اسی دکان میں لگا دی ہے، اگر خواتین پر پابندی لگا دی گئی تو سارا سرمایہ ڈوب جائے گا۔
پابندی کے حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کرک سردار شفیع اللہ خان گنڈہ پور سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے سختی سے اس بات کی ترید کی اور کہا کہ انہوں نے اس بات کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی ھے کہ وہ بازاروں میں خواتین کی آمد پر پابندی لگائے کیونکہ قانون میں مرد اور خواتین کو برابر کے خقوق حاصل ہیں، خواتین آزادی کے ساتھ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بازار جا سکتی ہیں، قانون میں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ہاں البتہ بے حیائی کی روک تھام کے لئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس اپنا کردار ادا کریں گی کیونکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے، جہاں کہیں بھی قانون شکنی ہو گی ھم اس کے خلاف اقدام کریں گے۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح کرک میں بھی خواتین پر اس طرح کی پابندیاں اس سے قبل بھی عائد کی جاتی رہی ہیں۔