قبائلی اضلاع میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے تعلیمی ادارے بند کیوں ہوگئے؟
زاہد جان
ضم شدہ اضلاع میں احتجاجاَََ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے تمام تعلیمی ادارے بندہوگئے۔ اۤل پراجیکٹ ملازمین ضم شدہ اضلاع کے صدر ریاض خان کا کہنا ہے کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن سابقہ فاٹا کے 137 ملازمین ریگولرائزیشن ایکٹ 2021کے تحت ریگولر کئے گئے تھے، سات مہینے گزرنے کے باوجود سیکرٹری انڈسٹریز آرڈرز جاری کرنے میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن سابقہ فاٹا کے تمام تعلیمی ادارے پراجیکٹ ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے بند ہو گئے اور یہ اس وقت تک بند رہیں گے جب تک ملازمین کو مستقلی آرڈرز نہیں دئیے جاتے۔ یاد رہے کہ نئے داخلوں اور سیشن کا باقاعدہ آغاز یکم اگست سے ہو چکا ہے اور اداروں کی بندش کیوجہ سے پہلے سے پسماندہ قبائلی اضلاع فنی تعلیمی لحاظ سے مزید زوال کا شکار ہونگے۔
ملازمین کے مطابق ریگولرائزیشن آرڈر جاری نہ ہونے کی صورت میں صوبائی اسمبلی کے سامنے بھی بھرپور احتجاج ریکارڈ کیا جائے گا۔ریاض خان کے مطابق سابقہ فاٹا کے 10 فنی تعلیمی اداروں میں عرصہ دراز سے 137 پراجیکٹ ملازمین خدمات انجام دے رہے تھے جن میں لیکچررز کے علاوہ باقی انتظامی عملہ بھی شامل ہے۔صرف گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی باجوڑ میں 800 سے زیادہ طلباء زیر تعلیم ہیں جبکہ خواتین کے وومن وکیشنل ٹریننگ سنٹر میں 700 سے زائد خواتین تربیت حاصل کررہی ہیں اور اس طرح باقی قبائیلی اضلاع کے ہر فنی تعلیمی ادارے میں سینکڑوں طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نیا تعلیمی سیشن یکم اگست سے شروع ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملازمین کے احتجاج اور اداروں کی بندش کی وجہ سے ہزاروں طلباء کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ ملازمین کا مطالبہ ہے کہ ہمیں اسمبلی کے بنائے گئے قانون کے مطابق فالفور ریگولرائزیشن آرڈر جاری کئے جائے۔ریاض خان نے ٹی این این کو بتایا کہ صوبائی وزیر انورزیب خان اور دیگر صوبائی ممبران ہمارے حق میں ہیں جنہوں نے مستقلی ایکٹ پر ہمارا ساتھ دیا تھا اور اب بھی ہمارے ساتھ کھڑ ے ہیں۔
ریاض خان نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے تو بل پاس کروایا ہے لیکن اب سیکرٹری کامرس اینڈ انڈسٹری تاخیری حربے استعمال کررہا ہے جو تمام ضم اضلاع کے طلبہ کیساتھ ظلم ہے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور دیگر حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ انکے مستقلی کے اۤرڈرز جلد از جلد جاری کئے جائیں۔