”خیبر پختونخوا پولیس اپنے بعض جوانوں کی قربانیوں کو نظرانداز کر چکی ہے”
شاہین آفریدی
4 اگست خیبر پختونخوا میں ملک و قوم کے دفاع کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے منایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود خیبر پختونخوا پولیس اپنے بعض جوانوں کی قربانیوں کو نظرانداز کر چکی ہے۔
پاک فوج کے جوان ہوں یا قبائلی اضلاع کی لیویز فورس، پاکستانی سیکورٹی ادارے قربانیوں سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ جس کا سلسلہ 1965 کی پاک بھارت جنگ سے لے کر آپریشن ضرب عضب تک، اور اس کے بعد سے تاحال جاری ہے۔
خیبر پختنخوا کے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے کمانڈر ظہیر احمد آفریدی بھی ملکی دفاع کی خاطر خودکش حملے میں شدید زخمی ہونے والے سپاہیوں میں شامل ہیں۔ 19 جنوری 2016 کو وہ معمول کی گشت پر تھے کہ جب خودکش حملہ آور نے ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں ایک صحافی سمیت 10 افراد شہید ہو گئے۔ شہید ہونے والے افراد میں زیادہ تر اس وقت کی خیبر لیویز فورس کے اہلکاروں کی تھی۔
کمانڈر ظہیر احمد کہتے ہیں کہ وہ گوریلا وار لڑ رہے ہیں، اس جنگ میں ان کا دشمن واضح طور پر سامنے نہیں آتا، دشمن ہمیشہ پیچھے سے وار کرتا ہے، "عام شہری ہمیں دیکھ کر تسلی اور آرام سے زندگی گزارتے ہیں اسی لیے ہمیں زیادہ حوصلہ اور بہادری دکھانا ہوتی ہے، دہشت گردوں اور شرپسندوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ایک سپاہی کا کام ہوتا ہے، ہم قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”
کمانڈر ظہیر احمد کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ دشمنوں کو پیچھے دھکیلا ہے، قبائل اپنے وطن پر جان نچھاور کرنے والی قوم ہے لیکن کچھ عرصے سے قبائلی اضلاع دہشت گردی کا شکار ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان ظہیر احمد کو اس کے بھائی کی شہادت کی شکل میں ملا ہے، دو سال پہلے ظہیر احمد کا بھائی حولدار توفیق احمد بھی ضلع خیبر کے سب سے حساس علاقے میں پولیو مہم کی نگرانی کرتے ہوئے دشت گردوں کا نشانہ بنا اور شہید ہو گیا۔
کمانڈر ظہیر کا کہنا ہے کہ ان کا بھائی ایک نڈر اور بہادر سپاہی تھا جس نے پاکستانی شہریوں اور وطن کی حفاظت کیلئے قربانی دی جو کبھی رائیگاں نہیں جائے گی، اسی جذبے کے تحت وہ بھی ملک و قوم کے دفاع کیلئے ہر وقت تیار ہیں، "جوان بھائی کو کھونا چھوٹی بات نہیں ہوتی، اس کی کمی ہمیشہ رہے گی لیکن اس بات پر بہت خوشی ہوتی ہے کہ اس نے اپنے ملک اور قوم کی خاطر جان دی ہے۔”
ظہیر کے مطابق ضلع خیبر میں سال 2012 سے اب تک 106 پولیس اہلکاروں نے ملک کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، فاٹا مرجر سے پہلے شہداء کو شہادت کا رتبہ مل چکا ہے لیکن صوبے کے باقی پولیس اہلکاروں کی طرح شہداء پیکج یا مراعات نہیں ملیں۔ ان کے مطابق شہداء پیکج کے حوالے سے بتایا کہ قانون متعلقہ اداروں میں فٹ بال بن چکا ہے اور پچھلے چار سالوں سے اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
ظہیر کا کہنا تھا کہ "فاٹا مرجر سے پہلے لیویز اہلکاروں کو اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے کچھ معاوضہ ملتا تھا لیکن مرجر کے بعد وہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے جبکہ مرجر کے بعد ضلع خیبر میں 8 شہداء میں سے 5 کو شہداء پیکج مل چکا ہے لیکن اس سے پہلے شہید ہونے والے اہلکاروں کو صرف 4 اگست یوم شہداء کے موقع پر یاد کیا جاتا ہے، ملک و قوم کی خاطر جان نچھاور کرنے والے اہلکاروں کو وہ عزت افزائی نہیں ملتی جو ان کا حق بنتی ہے۔”
آزاد میڈیا رپورٹس کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں پچھلے 15 سالوں میں 1072 کانسٹیبل بشمول 1480 پولیس اہلکار دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، ٹارگٹڈ آپریشنز میں نشانہ بنے اور بمب دھماکوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں دو ایڈیشنل آئی جیز، دو ڈی آئی جیز، دو ایس پیز، انیس ڈی ایس پیز اور اکتیس انسپکٹرز شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پشاور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چار سو بیاسی پولیس اہلکاروں نے قربانیاں دی ہیں۔ بنوں میں ایک سو چورانوے پولیس اہلکار شہید، ڈی آئی خان میں ایک سو چونسٹھ پولیس اہلکار شہید، سوات میں اٹھائیس پولیس اہلکار، چارسدہ میں چار سو نو پولیس اہلکار شہید ہوئے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے تھانہ متنی کے ایس ایچ او عشرت حسین 20 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ ان کے دوستوں و احباب کے مطابق عشرت حیسن ایک بہادر ایماندار اور نڈر پولیس افسر تھے۔
عشرت حسین کے بیٹے ان کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آبدیدہ ہوئے۔ ان کے مطابق ان کے والد ملک و قوم کی خاطر قربانی دینے والے ایک افسر تھے۔ یوم شہداء کے موقع پر حکومت سے گلہ کرتے ہوئے بتایا کہ "اس اہم دن پر حکومت کی جانب سے میرے والد کو نظر انداز کیا گیا ہے، صوبے بھر میں مختلف تقاریب ہوئی ہیں لیکن ہمیں مدعو نہیں کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قربانی کو نظرانداز کیا گیا ہے۔”
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان قبائلی علاقوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ فروری 2018 میں وزارت سیفران کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے 2018 تک 3904 لوگ دہشت گردی کا لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف پولیس کی قربانی میں قبائلی اضلاع میں سب سے زیادہ نقصان ضلع کرم کو پہنچا ہے جہاں 1845 لوگ دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پہ ضلع خیبر ہے جہاں 1055 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ باجوڑ میں ان کی تعداد 337 جبکہ اورکزئی میں 130 لوگ دہشت گردی سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پچھلے 4 سالوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والوں میں سب سے زیادہ تعداد سیکیورٹی فورسز کی ہے۔
لیکن پاک فوج ہو یا سیکیورٹی فورسز کے اہلکار، ملکی دفاع کیلیے جب بھی ضرورت پڑی یہ جوان پیچھے نہیں ہٹے۔ دشمن کو ہمیشہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے۔