فارن فنڈنگ کیس: عمران خان کا بیانِ حلفی جھوٹا قرار، شوکاز نوٹس جاری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت ہو گیا، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیوں نا آپ کے فنڈز ضبط کر لئے جائیں۔
چیف الیکشن کمشنر کا پاکستان تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے 21 جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کہنا تھا کہ پارٹی اکاؤنٹس کے حوالے سے دیا گیا بیان حلفی غلط ہے، چیئرمین پی ٹی آئی، عمران خان نے جو فارم ون جمع کیا اس میں غلط بیانی کی گئی۔
چیف الیشن کمشنر کے مطابق 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے جس کے بارے میں پی ٹی آئی بتانے میں ناکام رہی، پارٹی کو امریکہ، آسٹریلیا اور یو اے ای سے ممنوعہ فنڈز موصول ہوئے، غیرملکی فنڈز ریزنگ میں 34 غیرملکیوں، 351 کاروباری اداروں بشمول کمپنیوں سے فنڈز لئے گئے جبکہ ایک امریکی شہری سے بھی پارٹی کو عطیات ملے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈز آئین کے آرٹیکل چھ تین کے خلاف لئے، اکاؤنٹس چھپانا آئین کی خلاف ورزی ہے، پی ٹی آئی نے پولیٹیکل پارٹی آرڈر کی بھی خلاف ورزی کی ہے، سٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے 13 غیرتسلیم شدہ فنڈز پارٹی کی سینئر قیادت نے بنائے تھے، پی ٹی آئی نے صرف 8 اکاؤنٹس تسلیم کئے تھے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے فرخ حبیب، ملیکہ بخاری اور فواد چوہدری سمیت دیگر رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد اور اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے ایک پریس کانفرنس میں یہ مطالبہ کیا کہ مغرب کی مثالیں دینے والے عمران خان کو اب استعفیٰ دے دینا چاہئے اور پی ٹی آئی کو نظریاتی کارکنوں کے حوالے کیا جائے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے، یعنی سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرح عمران خان بھی تاحیات نااہل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 14 نومبر 2014ء کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں، الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی جس کے 95 اجلاس ہوئے جن میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔
الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گیے۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔
اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیرملکی اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔
پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جبکہ سٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔
پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیرقانونی طور پر کھولے گئے۔