معاشرے میں عدم برداشت اور انتہاپسندی کا رجحان
جنید احمد خان
ویسے تو ہم سب کہتے رہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، یہ معاشرہ اور یہ ملک مسلمانوں کا ہے مگر ہمارے کام، رویے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا برتاؤ غیرمسلموں سے بھی بدتر ہے، کیونکہ ہم صرف اپنے آپ تک محدود ہو چکے ہیں۔ اور جب ایک انسان خود تک محدود ہوتا ہے تو اُس میں صبر و تحمل ختم اور نفرت جنم لے لیتی ہے جس کا نتیجہ انا اور غصہ کی صورت میں سامنے آتا ہے اور غصہ حرام ہے۔
جو چیز حرام ہے، اس سے اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو منع کیا ہے مگر باوجود اِس کے اگر ایک بندہ اپنے رب کی نافرمانی پہ آ جائے تو گھروں، حجروں اور معاشرے میں عدم اعتماد، عدم برداشت اور انتہاپسندی جنم لے لیتی ہے جس سے قومیں برباد ہو جایا کرتی ہیں۔
اگر ہم اپنے ماضی میں ذرہ برابر جانکھیں تو ایک بات صاف نظر آتی ہے کہ ہمیشہ دوسروں نے ہماری عدم برداشت، آپس کے لڑائی جھگڑوں اور بے اعتباری سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان کے وزیر صرف اپنے آپ تک محدود ہو چکے تھے تبھی انہوں نے اپنی سلطنت کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ سلطان کو ہار سے دوچار ہونا پڑا۔ ا
سی طرح اگر ہم انتہاپسندی کی بات کریں تو ہم انتہاپسندی تب اختیار کرتے ہیں جب ہم میں انا آ جاتی ہے، انا ایسی چیز ہے جب ہمارے ساتھ کوئی بُرا کرتا ہے، کوئی ہمیں گالی دیتا ہے یا ہمارے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے تب ہم میں بدلے کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے اور ہم اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب موقع ہاتھ آئے اور ہم اپنا بدلہ لے سکیں اور جب موقع ہاتھ آتا ہے تو ہم ہر حد پار کر لیتے ہیں یعنی موقع ہاتھ آنے پر اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر اپنی اوقات دکھا دیتے ہیں۔ ہماری اس فطرت کے باعث معاشرے کا امن و امان خراب ہو جاتا ہے۔
ہم اگر دنیا کے ایسے لوگوں کی زندگیوں کا جائزہ لیں جن کو اقوام اپنا لیڈر مانتی ہیں تو ہمیں ان میں ایک بات مشترک دکھائی دے گی اور وہ ہے صبر۔ گاندھی جی کا ایک قول ہے کہ "اگر آپ کو کوئی ایک تھپڑ مارے تو آپ اپنا دوسرا گال بھی تھپڑ کھانے کے لئے سامنے کرو۔”
ہم اایسے لوگوں کی باتیں سن کر صرف واہ واہ تو کرتے ہیں لیکن سوچتے نہیں کہ ان باتوں میں ہمارے لئے کیا پیغام ہے۔ اگر ہم دونوں جہانوں کے سردار حضرت محمدﷺ کی ذات مبارکہ کی بات کریں تو اُن کی زندگی ہم سب کے لئے عملی نمونہ ہے مگر کاش کہ ہمارے پاس تھوڑا وقت ہوتا اور ہم اپنے مذہب کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تو کیا ہی بات ہوتی، کتابِ آخر قرآن کریم میں ایک ایت مبارکہ ہے "اِنَ اللہ مع الصابرین” یعنی بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جب ہمارے اپنی کتاب میں ایسی ایسی عظیم ایات مبارکہ موجود ہیں تو ہمیں اوروں کو پڑھنے کی کیا ضرورت!
اگر ہم نبی آخرالزماں کی زندگی کو دیکھیں تو طائف میں اُن کے ساتھ کیسا سلوک ہوا مگر باوجود اِس کے نبی کریمؐ نے مخالفوں سے انتقام لینا تو کجا انہیں بددعا دینے سے بھی احتراز کیا۔
جب ہمارے پاس اس عظیم اور بے مثال ہستی کے عظٰیم کردار کی اعلی مثالیں موجود ہیں تو پھر کیوں ہم ایسی حرکات کرتے ہیں جن سے ہمارا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت یا انتہاپسندی اس لئے ہے کیونکہ ہم لوگوں نے مطالعہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے نہ اپنی اصلاح کے لئے کچھ کیا ہے اور نہ کرنا چاہتے ہیں تبھی آج ہمارا یہ حال ہے۔
انتہاپسندی تب آتی ہے جب بندے میں اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ غصے کا دورانیہ صرف اور صرف پندرہ منٹ ہے۔ اگر بندہ پندرہ منٹ صبر کرے اور خود کو اکیلا کرے تو وہ اپنی پوری زندگی تباہ کرنے سے بچ سکتا ہے۔
بس آخر میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عدم برداشت اور انتہاپسندی کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ کسی کو برداشت نہ کرنا اور ہر وقت لڑنے مرنے پر تل جانا اپنی جھوٹی انا کی تسکین اور وقتی کامیابی تو ہو سکتی ہے لیکن اس کا نتیجہ بربادی اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اگر ہم برداشت اور رواداری اختیار کر لیں تو یقین کریں ہم خود پر فخر محسوس کریں گے۔
اسی طرح انتہاپسندی اکیلے ایک انسان یا خاندان کو نہیں بلکہ پوری نسل کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ اس وجہ سے تو اللہ سبحانَ و تعالی نے فرمایا ہے کہ آپ لوگ انتقام لینے میں انتہاپسندی کی حد تک مت جائیں کیونکہ انتہاپسندی رب ذوالجلال کو بھی نہیں پسند۔ اگر ہم غصے کو کنٹرول کریں گے تو انتہاپسندی، عدم برداشت اور دل آزاری سے بچا جا سکتا ہے۔
اللہ آپ سب قارئینِ کرام کو سلامت رکھے اور ہم سب کو اپنے سیدھے راستے پہ لگائے۔ آمین!