بہن، بیٹی وراثت کے حق سے محروم کیوں؟
شمائلہ آفریدی
کہا جاتا ہے "عورت انسانی حیات کی گاڑی کا دوسرا پہیہ ہے۔” اس کو کسی بھی سماج میں نظرانداز کرنا آسان نہیں ہے لیکن انسانی تاریخ کا المیہ ہے کہ عورت آدھی دنیا ہونے کے باوجود وہ حثییت نہ پا سکی جس کی وہ مستحق ہے۔
آج دنیا تسلیم کرنے لگی ہے کہ عورت معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد، اس کے باوجود آج بھی خواتین کو صنفی امتیاز کا سامنا ہے جس میں بہن اور بیٹی کو وراثت میں حصہ سے محروم کرنا بھی شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (مفہوم) کہ مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ و رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، چاہے چھوڑا ہوا مال تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ اللہ کریم کی طرف سے مقرر ہے۔
اسی حوالے سے ارشاد رحمت العالمینﷺ کا مفہوم ہے کہ جس شخص نے ظلم کرتے ہوئے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہڑپ کر لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنے حصے کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔”
یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم کا نظام کسی انسان نے نہیں بلکہ خود خالق کائنات نے بنایا ہے جس میں بیٹے کو دو حصے جبکہ بیٹی کو ایک حصہ دینے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بیٹیوں کو وراثت میں حق دینے والے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو گی۔
عزت کا بوجھ صرف بیٹی کے کندھوں پر
اسلام نے بیٹی کیلئے وراثت میں تیسرا حصہ دینے کا حکم دیا ہے لیکن اس کے باوجود اسے اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ یہ ناانصافی پرائے لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بھائیوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔
بہن یا بیٹی اعلی تعلیم حاصل کرنے یا رشتے کے معاملے میں اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم خاندان کی عزت ہو اس لئے تعلیم کیلئے گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ باہر نامحرموں کی نظر پڑے گی تو ہماری بے عزتی ہو گی۔
یہی کہہ کر بہنوں اور بیٹیوں کو گھر کی چار دیواری میں بند رکھا جاتا ہے۔ اس کے اٹھنے بیھٹنے، کھانے پینے حتی کہ زندگی کے تمام معاملات میں نام نہاد عزت کا بوجھ اسی بہن یا بیٹی کے کاندھے پر لاد دیا جاتا ہے جسے وراثت میں اس کا جائز حق تک نہیں دیا جاتا۔ اگر بیٹی اپنے کندھوں پر رکھی گئی عزت کا بوجھ لادے رکھے تو اسے خاندان کا فخر سمجھا جاتا ہے۔ المیہ ہے کہ بیٹی کو اس وقت بھی یہ کہہ کر چپ کرایا جاتا ہے کہ وہ باپ کی جائیداد میں حصہ نہ مانگے کیونکہ اگر وہ حصہ مانگے گی تو اس سے بھی بہن بیٹی کی عزت داغدار ہو گی۔
عدم مساوات کا شکار عورت
اسلام کو ماننے کے دعوے دار اپنی بہن بیٹی کو وراثت میں حق دینے سے محروم رکھتے ہیں، یوں وہ بنیادی اسلامی احکامات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اگر کسی کی شادی شدہ بہن معاشی مشکلات کا شکار ہو، ایسے میں وہ اپنے بھائیوں سے اپنے باپ کی وراثت میں حصہ مانگتی ہے تو اس وقت اپنی بہن کی عزت بھول جاتے ہیں اور اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے جیسے کہ بہن نے اپنا حصہ مانگ کر کوئی بڑا گناہ کر لیا ہے۔ وہ بہن سے لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں، اسلام میں دیا ہوا حق مانگنا اس کے گلے کا طوق بن جاتا ہے۔
بھائی اپنے باپ کی میراث پر عیش کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن مالی مشکلات میں گھری ہوئی سگی بہن یا بیٹی کیلئے اپنا حق مانگنے کے تمام دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا بیٹا اور بیٹی ایک باپ کی اولاد نہیں؟ کوئی بھائی کیا اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ یہ میری بہن نہیں ہے؟ آخر بیٹی کو باپ کی وراثت میں حصہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ کیوں وہ اسلام کے اس حکم پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں؟ کیوں عورت کو عزت کے نام پر ہر معاملے میں اپنے حق سے محروم کیا جاتا ہے؟
شمائلہ آفریدی نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سوشل ایکٹوسٹ اور سیٹیزن جرنلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔