حقوق نسواں کی قاتل رسم ”ولور۔۔۔”
شمائلہ آفریدی
جو واقعہ میں آپ کو یہاں بتانے چلی ہوں یہ نہ تو کسی بالی ووڈ فلم سے لیا گیا ہے نہ ہی کسی ہندی فلم سے۔ یہ واقعہ اسی منافق معاشرے کی ایک دردناک حقیقت ہے جہاں عورت کی عزت و توقیر کو لفظوں میں تو انتہائی بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
سمیرا کی کہانی
بائیس سالہ سمیرا کا تعلق اورکزئی ایجنسی سے ہے ۔ سمیرا کے والد نے کسی سے ادھار لیا تھا اور بروقت اداٸیگی نہ کرنے پر اس قرض کے عوض اپنی تیرہ سالہ معصوم بچی کو اس کے گھر کام کرنے کے لیے بھیجا۔ یہاں سمیرا سے کسی لونڈی کی طرح کام لیا گیا۔
قرضدار خاندان کے ظالمانہ رویے سے تنگ آ کر دو مہینے بعد ہی سمیرا فرار ہو کر اپنے گھر واپس آ گئی اور دوبارہ وہاں جانے سے انکار کر دیا۔
بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ سمیرا کا والد اس کا سگا باپ تھا، لیکن سلوک سوتیلوں سے بھی بدتر تھا۔ دوسری بار اس نے قرض کے عوض نہیں بلکہ کچھ رقم کی خاطر سمیرا کی زندگی کا ہی سودا کر لیا۔ اور اسے پانچ لاکھ کی ”ولور” کی معمولی رقم کے عوض اس کی شادی ایک چالیس سالہ شخص سے کرا دی۔
یہ ہیپاٹاٸٹس بی کے مرض کا بھی شکار تھا۔ بہرحال یہاں سمیرا کو اپنے سے عمر میں دگنے اور ایک عدد سوتن کے ظالمانہ رویے کو کافی عرصے تک سہنا پڑا۔ اور بالآخر وہ ایک علحیدہ رہائش اختیار کرنے پر مجبور کر دی گئی جہاں پر اسے اپنے دو بچوں کی ضروریات بھی پوری کرنا تھیں۔ اس کا شوہر بس نام کا شوہر تھا۔ جس کو نہ تو سمیرا کی ضروریات کی کوئی فکر تھی اور نہ ہی اپنے دو بچوں کی پرورش کا کوئی غم تھا۔
مجرم کون ؟
اس کا والد جس نے قرض کے عوض اس کو گھر کی ملازمہ بنا کر زندہ درگور کر دیا تھا، یا پھر وہ قرضدار جس نے محض اپنے قرض کی خاطر ایک بچی کو بطور ملازمہ اپنے گھر میں غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا، یا پھر وہ شخص جس نے اک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی پانچ لاکھ دے کر اپنی عمر سے آدھی عمر کی بچی سے شادی کی؟
لوگوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ سمیرا اور اس کے دو بچے کیسے زندگی گزار رہے ہیں؟ اسے بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑ رہے ہیں؟
لیکن ہاں لوگوں کو یہ فکر ضرور ہے کہ کہاں کہاں جاتی ہے، کس وقت جاتی ہے اور کس وقت واپس آتی ہے۔
”ولور” پشتون معاشرے کا ناسور
یہ صرف اکیلی سمیرا کی کہانی نہیں، اس قسم کے واقعات ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں۔ ولور ہمارے پشتون معاشرے کی برائی ہے جو اج کے ترقی یافتہ دور میں افغانستان، بلوچستان اور پختونخوا کے کئی قبیلوں میں اج بھی راٸج ہے جس میں لڑکی کو ایک مقررہ قیمت کے عوض فروخت کر کے بیاہ دیا جاتا ہے۔
یوں کہیے کہ گئے وقتوں میں لونڈی اور غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں، آج کل منڈیاں تو نہیں لگتیں لیکن لڑکیوں کی خرید و فروخت کا طریقہ کار وہی صدیوں پرانا ہے۔ ولور زمانہ جاہلیت کی تو نہیں لیکن ایک جاہلانہ رسم ضرور ہے۔
حقوق نسواں سلب
اس قسم کے سودے میں لڑکی کے تمام بنیادی حقوق صلب کر لئے جاتے ہیں، گھر میں اس کو ایک نوکرانی کی طرح رکھا جاتا ہے، ولور میں لائی گئی لڑکی کو بکاؤ مال سمجھا جاتا ہے، اس پر ہر قسم کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں جبکہ اکثر لڑکیاں اس ظلم پر خاموشی کی چادر ڈال کر پوری عمر اسی طرح گزار لیتی ہیں۔ حیرت تو یہ بھی ہے کہ پختون قبایل اپنے رسم و رواج کو انتہائی اعلی اور اسلامی تعلیمات سے قریب تر سمجھتے ہیں مگر اس کے باوجود ان قبیلوں میں اس قسم کی رسومات کا ہونا ایک المیے سے کم نہیں۔
عورت انسان ہے
عموماً لڑکیوں کے خریدار زیادہ تر وہ امیر بوڑھے ہوتے ہیں جنہیں شادیوں کا شوق ہوتا ہے یا کسی وجہ سے ان کی جوانی میں شادی نہیں ہو پاتی۔ ایسی صورت میں وہ اپنی دولت کی بنیاد پر اس قسم کی روایات رکھنے والے خاندانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یوں وہ ناصرف اپنی آدھی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ اپنی اپنی سماجی حیثیت کو قائم رکھنے کی بھی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ولور کا سب سے تاریک پہلو بھی یہی ہے کہ خریدار کی عمر، جسمانی و طبعی نوعیت اور اس کے کردار کو بالکل بھی نہیں پرکھا جاتا، بس اس کی معاشی حالت دیکھی جاتی ہے کہ جتنا امیر ہو اتنا اچھا ہے۔
میرے نزدیک بیٹی کو زندہ دفن کرنا اور رقم کے عوض بیچنا دونوں ہی برابر ہیں۔ ایک باپ جب اپنی بیٹی کا سودا کر کے لاکھوں کے عوض اس کا ہاتھ کسی بوڑھے شخص کے ہاتھ میں دیتا ہے تو یہ بھی زندہ درگور کرنا ہی ہے۔
اس لڑکی کی سوچ اس وقت یہی ہو گی کہ کاش اس کا باپ اسے بچپن میں زندہ دفن کر دیتا۔
میں سمجھتی ہوں کہ اس جاہلانہ رسم کی بھرپور حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
کیا آپ بھی ولور کا خاتمہ چاہتے ہیں یا آپ اسے درست سمجھتے ہیں؟
شمائلہ آفریدی نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سوشل ایکٹوسٹ ہیں اورمختلف موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔