خیبر پختونخوا: میڈیا ورکرز کم سے کم اجرت سے محروم کیوں؟
عبدالنعیم سرحدی
خیبر پختونخوا حکومت نے مزدور کیلئے کم سے کم اجرت 21 ہزار سے بڑھا کر 26 ہزار روپے مقرر کر دی ہے جو بلاشبہ قابل ستائش ہے۔ اب اس صوبے میں مزدوروں کو کم سے کم 26 ہزار روپے ماہانہ ادائیگی ہو گی، لیکن کیا حکومت اپنے اس اعلان پر عمل درآمد کراتی ہے؟
صوبائی حکومت کا ایک محکمہ اس تمام عمل کی نگرانی کیلئے موجود ہے اور اس محکمہ کو محنت کا نام دیا گیا ہے۔ محکمہ محنت میں مرد و خواتین انسپکٹرز ہیں جو ہر کمرشل مقام پر جا کر مزدوروں کی تنخواہ سمیت ان کے کام کرنے کی حالت، سہولیات اور اجرت کے مطابق ان کی ذمہ داریاں دیکھتے ہیں لیکن یہ تمام عمل مصنوعی نظر آتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے 35 اضلاع میں اگر صرف پشاور یعنی صوبائی دارالحکومت کی بات کی جائے تو کم سے کم اجرت کا قانون پشاور میں بھی عملی طور پر نافذ نہیں ہے، شہر میں درجنوں ایسے سکول موجود ہیں جہاں آج بھی ایف اے اور بی اے پاس اساتذہ کو 12 اور 15 ہزار روپے ماہانہ ادا کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی نوکری بھی چند ماہ کیلئے ہوتی ہے جیسے ہی سکول بند ہوتے ہیں تو یہ اساتذہ نوکری سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ سکول مالکان تو بچوں سے تین ماہ کی گرمی کی چھٹیوں کے پیسے وصول کر لیتے ہیں لیکن اساتذہ کو تنخواہ دینے کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔
اسی طرح معاشرے کی آنکھ اور کان سمجھا جانے والا صحافت کا شعبہ اس سے بھی زیادہ بدتر حالت میں ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت سے لاکھوں نہیں بلکہ سالانہ کروڑوں روپے کے اشتہارات لینے والے میڈیا کے ادارے اس قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں لیکن ان کے سامنے صوبائی حکومت نے گھنٹے ٹیک دیئے ہیں اور اب تک محکمہ محنت کے کسی بھی ایک انسپکٹر نے کسی بھی میڈیا ہاﺅس کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کام کرنے والے مزدوروں کی کم سے کم اجرت تک معلوم نہیں کی ہے۔
حکومت خیبر پختونخوا کے اعلامیہ کے مطابق کم سے کم اجرت ان مزدوروں کیلئے ہے جو غیرتربیت یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ ہیں تاہم اس اخباری اور الیکٹرانک میڈیا کی صنعت میں رپورٹرز، سب ایڈیٹرز، پیج ڈیزائنرز اور آئی ٹی سمیت پرنٹنگ پریس میں تکنیکی کام کرنے والے بھی 20 ہزار سے زائد کے حقدار نہیں ہیں، یہ ادارے ہر ماہ لاکھوں اور کروڑوں کے اشتہارات لیتے ہیں اور جس صوبائی حکومت کے قانون کے تحت یہ ادارے یہ اشتہار لینے کے حقدار ہیں اسی صوبائی حکومت کے قانون کے تحت یہ اپنے ملازمین کو ان کی محنت کے مطابق اجرت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
میڈیا صنعت سے وابستہ افراد کیلئے ویج بورڈ ایوارڈ بھی موجود ہے لیکن یہ ایوارڈ بھی صرف کاغذات کی حد تک محدود ہے۔
خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین کہتے ہیں کہ صحافت کی صنعت کیلئے آٹھواں ویج بورڈ ایوارڈ دو سال قبل منظور ہوا تاہم اب تک اس کیلئے آئی ٹی این اے (امپلیمنٹیشن ٹریبیونل فار نیوزپیپر امپلائز) چیئرمین تعینات نہیں کیا جا سکا، اس آسامی کو مشتہر کیا گیا ہے امید ہے جلد قانون کے مطابق ہائی کورٹ کے ریٹائر جج کی تعیناتی کر دی جائے گی، اس ویج بورڈ میں یہ سقم ہے کہ یہ صرف اخبار کے مستقل ملازمین کیلئے ہے، پشاور میں ڈان اور جنگ گروپ کے چند افراد اب مستقل ملازمین ہیں جو چند برسوں میں ریٹائر ہو جائین گے پھر ویج بورڈ پشاور میں کسی پر نافذ العمل نہیں رہے گا، فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اخبارات کے اشتہارات کو ویج بورڈ کے ساتھ قانونی طور پر نتھی کر دیا جائے تاہم ایسا اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
ناصر حسین کہتے ہیں کہ پشاور سمیت صوبہ بھر کی اخباری صنعت میں کام کرنے والے افراد پر جہاں ویج بورڈ لاگو ہوتا ہے وہیں خیبر پختونخوا کے محکمہ قانون کا ویج بورڈ بھی نافذ ہوتا ہے تاہم اس پر بھی عمل نہیں کیا جا رہا اور 8 سے 10 ہزار روپے تنخواہ پر کام کیا جاتا ہے، زیادہ تر ملازمین کو یہ تنخواہ بھی بروقت نہیں دی جا رہی۔
”اس حوالے سے صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی کو بھی درخواست کی گئی اور انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ لیبر انسپکٹرز ان اخبارات کا دورہ کرتے ہوئے قانونی خلاف ورزیوں پر کارروائی کرین گے تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔”
ناصر حسین کے مطابق یہ تمام گٹھ جوڑ مالکان اور حکومت کا ہے، صحافی خود اور یونین اس میں کچھ نہیں کر سکتی، اگر حکومت مالکان کیخلاف کارروائی کرتی ہے تو اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا حکومت مالکان کے ساتھ مل کر اپنے معاملات طے کر رہی ہے جس کی وجہ سے یونین کوئی درمیانی راستہ کی تلاش میں ہے۔
محکمہ محنت کے اعددادوشمار کے مطابق گزشتہ برس یعنی 22-2021 کیلئے طے شدہ 21 ہزار روپے کم سے کم اجرت یقینی بنانے اور مزدوروں کو فراہم دیگر قانونی سہولیات کے جائزہ کیلئے صوبہ بھر میں 20 ہزار 546 چھاپے مارے گئے ہیں جن میں 2 ہزار 844 خلاف ورزیاں رپورٹ کی گئی ہیں اور ان خلاف ورزیوں میں 2 ہزار 102 کیسز بھی رجسٹرڈ کئے گئے ہیں ایک ہزار 705 کیسز پر عدالت فیصلہ کر چکی ہے جبکہ ان خلاف ورزیوں پر 75 لاکھ 20 ہزار 250 روپے کا جرمانہ بھی وصول کیا گیا ہے صرف کم سے کم اجرت کی عدم فراہمی پر عائد اور وصول جرمانہ 4 کروڑ 68 لاکھ 6 ہزار روپے ہے۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی اور انہوں نے اپنا موقف دینے کا وعدہ بھی کیا تاہم دو روز تک انتظار کے باوجود انہوں نے اپنا موقف نہیں دیا۔
محکمہ محنت کے اعلیٰ حکام نے یہ بتایا کہ چند روز قبل صوبائی وزیر محنت کی سربراہی میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے اعلی سطحی اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں صوبائی وزیر محنت نے تمام کارخانوں اور دیگر مقامات پر کم سے کم اجرت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی تاہم اس اجلاس میں اخباری اور میڈیا کی صنعت کے حوالے سے کوئی گفتگو زیر بحث نہیں آ سکی۔