سانولی رنگت، ابو کا تذکرہ اور چھوٹا خالد
مہرین خالد
لفظ چھوٹا خالد پڑھ کر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید میں نے اپنے ابو کے بچپن کا تذکرہ کیا ہے لیکن ایسا بالکل نہیں۔چھوٹا خالد ایک لقب ہے جو بچپن میں پڑوسیوں کی طرف سے مجھے دیا گیا تھا، بقول ان کے میں خالد خان یعنی اپنے ابو کی ہم شکل ہوں۔
ابو پتلی جسامت، لمبا قد، سانولی رنگت اور خوبصورت سبز آنکھوں کے حامل ہیں، لیکن بڑے خالد یعنی ابو اور چھوٹے خالد یعنی مجھ میں ظاہراً کافی فرق ہے۔ نہ تو میں پتلی ہوں، نہ میرا قد لمبا ہے، اور نہ ہی خوبصورت سبز آنکھیں رکھتی ہوں۔ اگر کچھ ملتا جلتا ہے تو وہ ہے ہماری سانولی رنگت!
سب سے مختلف
ہم چار بہنوں میں، میں ہی سب سے مختلف ہوں۔ تینوں بہنوں کی آنکھیں ابو جیسی، قوس و قزح کے رنگوں جیسی اور رنگت امی پہ یعنی دودھیا۔ اس کے برعکس میری آنکھیں امی جیسی یعنی سیاہ اور رنگت ابو سی یعنی سانولی، بچپن میں ہم جہاں بھی جاتے اپنی رنگت کی وجہ سے میں سب کی توجہ کا مرکز بنتی، خاص کر امی سے پوچھتے "شگفتہ یہ بھی تمھاری ہی بیٹی ہے جو باقی سب بہنوں سے مختلف ہے؟”
میں بھی کہتی کہ میں ابو کی ہم شکل ہوں۔ میں بچپن سے اپنے لیے سٹینڈ لینے والی لڑکی ہوں اور یہ میں نے گھر والوں سے سیکھا ہے خاص کر سکینہ ادے سے۔ سکینہ ادے میری امی کی پھپھو ہیں جو مجھے ہمیشہ کہتی ہیں مہرین گلئی تم بہت پیاری ہو۔ شاید اسی وجہ سے کبھی میں اپنی رنگت کو لے کر احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئی۔
میں آج بھی چھوٹا خالد سے مہرین خالد بننے تک کے سفر میں اپنے نین نقش میں وہ نقوش ڈھونڈتی ہوں جو مجھے ابو سے ملاتے ہیں۔ جب لوگ مجھے یا میں لوگوں سے کہتی تھی کہ میں ابو کی ہم شکل ہوں تو اس پر خوشی کا اندازہ میں بخوبی لگا سکتی تھی کہ میری سانولی رنگت ابو جیسی ہے۔
کیا صرف گورے ہی خوبصورت ہیں؟
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ گوری رنگت کی پوجا کرتے ہیں۔ سیاہ رنگ کے کپڑے اور جوتے تو ہمارے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی انسان سانولی یا سیاہ رنگت کا مالک ہو تو اس پہ جیسے سیاہی کا "ہیش ٹیگ ” لگا دیتے ہیں۔
گوری رنگت کی چاہ میں ہم نے رنگ گورا کرنے والی کریموں سے اپنی چمڑی چٹی تو نہیں مگر ادھیڑ ضرور لی ہے، ہم نے وائٹننگ انجیکشن سے اپنا خون تو آلودہ کیا لیکن گوروں کی فہرست میں پھر بھی شامل نہ ہو سکے۔ مزید بیڑہ ہمارے معزز فیشن ڈیزائنرز نے غرق کیا جو ہمیں مختلف رنگوں میں تقسیم کر کے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کس رنگ کے ساتھ کون سا کلر سوٹ کرے گا۔
بیوٹی کیمرا اور سنیپ چیٹ
رنگت کے بارے میں احساس کمتری کو ہوا دینے میں بیوٹی کیمرا اور سنیپ چیٹ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کچھ دنوں پہلے واٹس ایپ پر ایک سٹیٹس نظروں سے گزرا جس میں عاطف اسلم کا یہ گانا "یہ موسم کی بارش یہ بارش کا پانی ” پر ایک لڑکی لپسنگ کر رہی تھی۔ ہر طرف سے اسٹیٹس گھما کر دیکھا کہ آخر یہ حسین لڑکی ہے کون، جب اپنا چشمہ اٹھایا اور لگا کر دیکھا تو پہچان پائی کہ یہ وہ درزن ہے جنھیں پچھلے دنوں کپڑے سلوانے کو دیے تھے۔ سنیپ چیٹ کے کمال سے پہچاننے میں ہی نہیں آئیں۔
بیوٹی کیمرا اور سنیپ چیٹ سے ہم اپنی آنکھیں آہو چشم، ہونٹ پنکھڑی نما اور ناک ستواں کر سکتے ہیں لیکن اس سے کیا نین نقش کی حقیقت بدل سکتی ہے؟
انگریزوں کی غلامی
انگریزوں کی غلامی سے پاک و ہند کے لوگوں نے جسمانی آزادی تو حاصل کر لی مگر ذہنی طور پر اب بھی ان کے غلام ہیں۔ انگریزوں نے جاتے وقت پاک و ہند کے لوگوں کو نہ صرف مذہبی تفرفے کی بنیاد پر تقسیم رکھا بلکہ گورے رنگ کا تعصب بھی یہیں چھوڑ گئے۔
انگریز بہادر کے خطہ برد ہونے کے باوجود ہم رنگت کی بنیاد پر لوگوں کو پرکھتے چلے آ رہے ہیں۔
معلوم نہیں کہ یہ معاشرہ رنگت کی تفریق سے کب آزاد ہو گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اپنی رنگت کو پہلے خود قبول کرنا ہو گا پھر دوسرے اس سے قبول کریں گے، اپنی رنگت پر بے کار کی محنت چھوڑ کر اصل صورت میں قبول کرنا خود سے محبت کرنا کہلاتا ہے۔
کیا رنگت کردار اور اخلاق کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے؟
مہرین خالد ضلع بنوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ٹی این این کے ساتھ بلاگر اور رپورٹر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔