جرائم

صحافی افتخار احمد کے قتل میں ملوث 3 ملزمان گرفتار کر لئے۔ پولیس کا دعوی

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں دو جولائی کی رات مقامی صحافی افتخار احمد کو نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ واقعے میں مبینہ طور پر ملوث تین ملزمان گرفتار کئے گئے ہیں جن سے تفتیش جاری ہے۔

صحافی افتخار احمد کے قتل کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی، شبقدر پولیس کے مطابق واقعے کی رپورٹ مقتول کے بھائی حضرت بلال نے درج کی اور کہا کہ ان کا کسی کے ساتھ ذاتی عناد نہیں ہے۔

تھانہ شبقدر کے مدد محرر جمیل احمد نے بتایا کہ واقعے کا مقدمہ دفعہ 302 کے تحت درج کیا گیا ہے جس کے بعد پولیس نے آئی جی کے حکم پر ماہرین کی ایک تفتیشی ٹیم تشکیل دی ہے۔

جمیل احمد نے ٹی این این کو بتایا کہ واقعہ ہفتے کی رات نو بجے شبقدر بازار کی شاکر نامی مارکیٹ کے تہہ خانہ میں پیش آیا جبکہ واقعے میں تین ملزمان گرفتار کر لئے گئے ہیں جن سے پوچھ گچھ جاری ہے۔

صحافی افتخار احمد نے اپنے سوگوران میں دو بیویاں، چار بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑے ہیں۔

تحصیل شبقدر کے مقامی صحافی عرفان اللہ کے مطابق 45 سالہ صحافی افتخار احمد 17 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ تھے، حال ہی میں وہ ایکسپریس اخبار اور ٹی وی چینل کے ساتھ بطور نامہ نگار اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

عرفان اللہ نے بتایا کہ صحافی کی نماز جنازہ اتوار کی صبح 8 بجے مقامی قبرستان میں ادا کی گئی جس کے بعد شبقدر کے صحافیوں نے احتجاج بھی کیا۔ احتجاج میں صحافیوں نے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری، ورثاء کیلئے شہدا پیکج اور صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

وزیراعلٰی خیبر پختونخوا نے صحافی افتخار احمد کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں متاثرہ خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور پولیس کو حکم دیا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے ضروری کاروائی عمل میں لائی جائے۔

ٹی این این کو موصول ہونے والی ایف آئی آر میں دہشت گردی کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے جبکہ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے واقعے کا نوٹس لے کر ڈی پی او چارسدہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ آئی جی پی معظم جاہ انصاری نے اپنے جاری کردہ بیان میں ڈی پی او چارسدہ کو ہدایات دی ہیں کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے اور صحافیوں کو فوری طور پر تحفظ دیا جائے۔

اس سے قبل بھی ضلع چارسدہ میں صحافیوں کے نامعلوم افراد کی جانب سے قتل کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ شبقدر میں 17 جنوری 2012 کو مکرم خان عاطف اور چارسدہ میں 30 اکتوبر 2018 کو احسان شیرپاؤ کو قتل کیا گیا تھا جن کے ملزمان کو تاحال کوئی سزا نہیں ملی ہے۔

خیبر پختونخوا میں صحافیوں کی اظہار رائے کی آزادی پر کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے کوآرڈینیٹر و سینئر صحافی گوہر علی خان نے صحافی افتخار احمد کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پولیس سے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

مقتول کی فائل فوٹو

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں سینئر صحافی گوہر علی خان نے بتایا کہ گزشتہ 72 گھنٹوں میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں حیران کُن طور پر اضافہ ہوا ہے جن میں صوبہ سندھ کے خیرپور کے صحافی اشتیاق سوڈھڑو، ایبٹ آباد میں سینئر صحافی سلطان محمود ڈوگر پر قاتلانہ حملہ، اسلام آباد میں تجزیہ کار آیاز امیر پر تشدد اور اب افتخار احمد کا قتل شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سال 22-2021 کے فریڈم نیٹ ورک کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب اسلام آباد جیسا پوش علاقہ بھی صحافیوں کیلئے خطرناک بن چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کی سیکورٹی بھی صحافیوں کیلئے ناکام ہو چکی ہے۔

گوہر علی نے بتایا "ان سب واقعات سے مجھے لگ رہا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لئے ایک قبرستان کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں پر صحافیوں کیلئے کوئی سیکورٹی کا انتظام ہے اور نہ ان کے تشدد میں ملوث ملزمان کو سزا ملی ہے اور سزا نہ ملنے کا نقصان یہ ہے کہ جب بھی مخالفین چاہیں صحافی کو ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔”

سینئر صحافی گوہر علی نے صحافیوں کے تحفظ پر بات کرتے ہوئے کہا ہر شہری کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی اپنا تحفظ یقینی بنانا ہو گا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ میں توازن پیدا کریں، انہیں سیکورٹی کے حوالے سے تربیت دی جائے۔

غیرسرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2002 سے اب تک 130 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے جن میں ملوث کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ملی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button