بی آر ٹی پشاور حکومت کی دکھتی رگ بن گئی
محمد فہیم
پشاور میں خیبر پختونخوا حکومت کی تاریخ کا سب سے میگا پراجیکٹ بس ریپڈ ٹرانزٹ اب آسان ہدف بن گیا ہے۔ آپ کے گھر میں بجلی نہیں آتی یا پھر آپ کے گھر گیس کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، آپ کے ساتھ کسی نے زیادتی کر دی یا پھر آپ کا ذاتی عناد آپ کو سڑک پر لے آیا، آپ نے آن لائن امتحان نہیں دینا یا پھر آپ کو بس سٹاپ کا نام نہیں پسند غرضیکہ مسئلہ کوئی بھی ہو آپ پشاور کی سڑک پر احتجاج کریں اور بی آر ٹی پر حملہ آور ہو جائیں۔
بی آر ٹی پر حملوں کی فہرست لمبی ہے۔ ابھی بی آر ٹی شروع بھی نہیں ہوئی تھی جب سردار گڑھی سٹیشن کے نام پر مسئلہ سامنے آ گیا اور مقامی افرادنے سٹیشن پر حملہ کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کر دی، معاملات سلجھے اور ان کی مرضی کے مطابق سٹیشن کا نام رکھ دیا گیا۔
13 اگست 2020 کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے بی آر ٹی کا افتتاح کیا اور صوبے کی تاریخ کی سب سے بڑی بس سروس شروع کر دی تاہم اگلے ہی روز ہشتنگری کے مقام پر شہریوں نے بی آر ٹی پر دھاوا بول دیا۔
80 ارب روپے سے زائد کی لاگت اب تک اس منصوبے پر آئی ہے تاہم ابتداء سے لے کر اب تک بی آر ٹی پر حملے نہیں روکے جا سکے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
بی آر ٹی کا انتظام سنبھالنے والی کمپنی ٹرانس پشاور کی ترجمان صدف کامل کہتی ہیں کہ بی آر ٹی پورے شہر میں پھیلی ہوئی ہے اور شہری آسانی سے اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، یہی آسان رسائی اس بس سروس کو آسان ہدف بھی بنا دیتی ہے تاہم یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بس سروس شہریوں کیلئے ہے، اگر شہری ہی اسے نشانہ بنائیں گے تو نقصان شہریوں کا ہی ہو گا۔
صدف کامل کے مطابق اس مسئلے کے حل کیلئے اب حکمت عملی مرتب کر لی گئی ہے، جہاں بھی خطرہ سامنے آتا ہے وقتی طور پر بی آر ٹی کی سروس معطل کر دی جاتی ہے اور جب معاملات قابو میں آ جائیں تو سروس دوبارہ بحال کر دی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ سروس معطل کرنا کسی کے حق میں نہیں ہے، دو بسوں کے درمیان وقفہ تین منٹ کا ہے اور جب کافی دیر کیلئے یہ سروس معطل ہوتی ہے تو نقصان مسافروں کو اٹھانا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روزانہ بی آر ٹی کو اڑھائی سے تین لاکھ مسافر استعمال کرتے ہیں جن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد خواتین ہیں، جب یہ سروس متاثر ہوتی ہے تو سب سے زیادہ خواتین کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
بی آر ٹی پر حملے تقریباً ہر کسی کی جانب سے کئے گئے ہیں۔ بجلی لوڈشیڈنگ کے دوران بھی اس بس پر حملہ کیا گیا جبکہ اسلامیہ کالج کی جانب سے کورونا کے بعد آن لائن امتحان نہ لینے کے فیصلے کیخلاف احتجاج کے دوران بھی مظاہرین نے بی آر ٹی پر ہی دھاوا بول دیا تھا۔ اسی طرح حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ کے باہر ملنے والی سربریدہ نعش کا معاملہ بھی بی آر ٹی سروس معطل کرنے تک پہنچ گیا، پشاور میں احتجاج کے دوران قومی املاک کو نقصان پہنچانا معمول بن گیا ہے۔
کوہاٹ یونیورسٹی کی لیکچرار رمل اعجاز نے اس حوالے سے بتایا کہ شہریوں میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے اور جب وہ غصہ میں ہوتے ہیں تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کو نقصان پہنچا رہے ہیں، احتجاج کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن احتجاج کرتے ہوئے سڑک بند کرنا اور بی آر ٹی یا کسی بھی قومی اثاثے پر حملہ کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہئے۔
رمل اعجاز نے بتایا کہ بی آر ٹی پشاور اس لئے بھی آسان ہدف ہے کیونکہ حکومت نے اس پر اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے اور حکومت کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اس دکھتی رگ کو نشانہ بنانا پشاور کی عوام سیکھ گئی ہے جو مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک ہے، عوام میں شعور و آگاہی سمیت اس قومی اثاثے کو نقصان پہنچانے والوں کو سزا جب تک نہیں دی جائے گی تب تک یہ عمل جاری رہے گا۔
ٹرانس پشاور کے مطابق جن لوگوں نے بھی بی آر ٹی کو اب تک نقصان پہنچایا ہے ان کیخلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ سکیورٹی کا عملہ متحرک کر دیا گیا ہے تاکہ ایسے واقعات سے نمٹا جا سکے تاہم اب تک کسی بھی قسم کی کارروائی نہ کرنا اس قومی اثاثے کے تحفظ کیلئے انتہائی سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے، احتجاج کرنے والا جتنے بھی غم اور تکلیف میں مبتلا ہو تاہم جب تک اس کیخلاف قومی اثاثے کو نقصان پہچنانے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے کارروائی نہیں کی جائے گی تب تک ایسے واقعات کی روک تھام مشکل ہو گی۔