لائف سٹائل

”لوگ تصویر دیکھ کر میرے بیٹے کا گھر سے نکلنا مشکل بنا دیں گے”

شاہد خان

احساس پروگرام کا نام ایک مرتبہ پھر تبدیل کر کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام رکھ دیا گیا ہے لیکن غریب عوام کے لئے طریقہ کار پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو گیا ہے، پشاور میں کسی بھی سنٹر کا حال دیکھا جائے تو ان سنٹرز میں خواتین کے لئے اپنا اندراج کروانا یا معلومات حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ صوبائی دارالحکومت کے ہر ٹاؤن میں ایک ایک مرکز ہی قائم کیا گیا ہے جو آبادی کے لحاظ انتہائی کم تعداد ہے جبکہ ان سنٹروں میں بی آئی ایس پی کا اور نادرا کا عملہ بھی بہت کم ہے۔

پشاور کے ٹاؤنز میں قائم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر میں شدید گرمی اور حبس میں سائلین کو دن بھر انتظار کرنا پڑتا ہے اور بیشتر خواتین کام ہوئے بغیر ہی واپس لوٹنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کسی بھی دفتر خواتین کا حال قابل رحم تو حکومت کی جانب سے شہریوں کے ساتھ مذاق اور ناانصافی قابل افسوس ہے جہاں غربت اور تنگدستی کی ستائی ہر خاتون اپنی الگ روداد سناتی دکھائی دیتی ہے۔

دفتر میں ایک ایسی بزرگ خاتون جن کی عمر تقریباً 75 سال یا اس سے زیادہ تھی اور اتنی کمزور تھی کہ خود چلنے پھرنے سے قاصر تھی اس لئے خواتین کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر آئی تھی، انہوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہیں، جس بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں اس کا کوئی خاص کام نہیں، یا یوں کہیے کہ بے روزگار ہے، کرایے کے گھر میں رہ رہے ہیں کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں ہے، ادویات کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے اس لئے نہایت مجبور ہو کر اتنی گرمی میں آنا پڑا۔

بڑی بی نے مزید بتایا کہ یہاں کوئی بات سننے والا ہے نہ ہی کوئی دھیان دے رہا ہے، صبح سے کبھی ایک کمرے تو کبھی دوسرے کمرے میں جا رہے ہیں لیکن اب تک کسی نے توجہ نہیں دی۔

اپنی بہو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجبوری نہ ہوتی تو اپنی جوان بہو کو یوں غیروں کے سامنے منت سماجت نہیں کرنے دیتی، بڑی بی سے بات چیت کے دوران تصویر کھنچوانا چاہی تو انہوں نے منع کرتے ہوئے کہا کہ خوامخواہ غربت کا تماشہ نہ بنائیں، لوگ تصویر دیکھ کر میرے بیٹے کا گھر سے نکلنا مشکل بنا دیں گے۔

بڑی بی کی کہانی تو صرف ایک تھی، بی آئی ایس پی کے ہر دفتر میں موجود ہر خاتون کی الگ کہانی ہے لیکن ہر کہانی کا خلاصہ اور لب و لباب غربت ہے۔

بی آئی ایس پی کے جس دفتر میں بڑی بی آئی تھی وہاں کا جائزہ لینے اور چند دیگر خواتین سے تھوڑی بہت معلومات حاصل کی گئیں تو پتہ چلا کہ تین کمروں اور ایک برآمدے پر مشتمل اس دفتر میں صرف ایک ہی واٹر کولر نصب تھا جس میں پانی بھی ٹھنڈا نہیں ہو پا رہا تھا کیونکہ ایک طرف تو خواتین کی تعداد کافی زیادہ تھی تو دوسری جانب ہر گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی بجلی لوڈشیڈنگ تھی۔

دفاتر میں عملے کے رویے کی بات کی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ خواتین ان کی کنیزائیں ہیں، ملازمین کا رویہ انتہائی ہتک آمیز، خواتین کو کھری کھری سناتے ہیں اور وہ چپ کر سہہ لیتی ہیں کیونکہ وہ مجبور ہوتی ہیں، کلاس فور بھی کسی افسر سے کم نظر نہیں آیا۔

بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام ذرائع کے مطابق پشاور کے ہر ٹاؤن کے لئے ایک دفتر قائم ہے جس میں عملہ انتہائی کم ہے، دفتر میں روزانہ 500 سے زائد خواتین آتی ہیں جن میں اکثر خواتین کا کام نہیں ہو پاتا کیونکہ ایک تو عملہ کم ہے، دوسرے 8 گھنٹے کی ڈیوٹی میں 4 گھنٹے بجلی نہیں ہوتی یعنی بجلی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چار گھنٹے ہے، دفتر میں بجلی کا کوئی متبادل نظام بھی نہیں ہے، جنریٹر یا سولر نہیں لگایا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بجلی چلی جاتی ہے تو کام رک جاتا ہے، دفتر میں گرمی اور حبس اس لئے ہے کہ خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، پنکھے تو ہیں لیکن ان پنکھوں کی ہوا نہ ہونے کے برابر ہے، عملہ بھی شدید گرمی میں مسلسل 8 گھنٹے دفتر میں موجود رہتا ہے، بجلی ہوتی ہے تو کام بجلی چلی جاتی ہے تو گرمی کی ستائی خواتین کی تلخ باتیں اور گالیاں سننا پڑتی ہیں۔

بی آئی ایس پی کے عملے کا کہنا تھا کہ حکومت نے احساس پروگرام کا نام تبدیل کر کے پھر سے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام رکھ دیا ہے، اب 2 ہزار روپے دینے کا بھی اعلان کیا ہے لیکن ان کی تفصیلات عملے کو فراہم نہیں کی گئیں۔ عملے کو یہ بھی پتہ نہیں کہ نئے اعلان کے بعد اہلیت کا معیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ پروگرام کو صرف سیاسی مقاصد کے لئے شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس کی بہتری پر کسی نے تاحال توجہ نہیں دی۔

بی آئی ایس پی کے تقریباً تمام افسران بالا مستقل نہیں بلکہ ڈیپوٹیشن پر تعینات کئے گئے ہیں اس لئے وہ صرف نوکری کرتے ہیں، فرائض انجام نہیں دیتے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر حکومت غریب عوام کی واقعی مدد کرنا چاہتی ہے تو بی آئی ایس پی کی بہتری کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے، ہر دفتر میں عملے کی تعداد کے ساتھ ساتھ ان کی استعداد کار بڑھانا ہو گی۔ بجلی کے متبادل بندوبست کے ساتھ ساتھ سائلین کی سہولت بھی ضروری ہے، پروگرام پالیسی میں تبدیلی اور اہلیت کے معیار سے متعلق تمام عملے کی آگاہی بھی ضروری ہے تاکہ جو خواتین اہل نہیں انہیں بروقت بتایا جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button