گندم: کس کیلئے فائدہ مند کس کیلئے نقصان دہ؟
ناہید جہانگیر
گندم جنت سے آئی ہوئی فصل ہے, اس میں جو طاقت ہے وہ کسی اور کھانے کی چیز میں نہیں ہے۔ گھر کے بزرگوں سے اکثر یہی سننا پڑتا ہے جو بھی کھایا جائے لیکن اس میں گندم کی روٹی شامل نا ہو تو اس کو کھانے کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا۔
پاکستان اور افغانستان میں سب سے زیادہ گندم کی روٹی استعمال کی جاتی ہے۔ چاول کا استعمال بھی کیا جاتا ہے لیکن وہ بہت ہی کم ہے۔ تقریباً ہر گھر میں چاول کے ساتھ ساتھ روٹی کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔
پشاور شہر کے 72 سالہ رہائشی کریم خان کے مطابق وہ خود زمیندار تھے، گندم کی جتنی بھی پیداوار ہوتی تو وہ صرف 6 مہینے تک چلتی، اس کی وجہ یہ تھی کہ فارمی یوریا نہیں ہوتا تھا اس لئے پیداوار بہت کم ہوتی تھی جو پورا سال نہیں چلتی تھی اس لئے 6 مہینے گندم کی روٹی کھائی جاتی تو 6 مہینے جوار کی روٹی پر گزارا ہوتا تھا۔
کریم خان کے مطابق سرخ گندم ہوتی اور پن چکی سے بنایا ہوا خالص آٹا ہوتا تھا، ان دنوں نا معدے کی بیماریاں تھیں نا شوگر نا بلڈ پریشر اور نا ہی زیادہ وزن کے مسائل، اب تو انگریزی یوریا سے گندم کی پیدوار زیادہ ہو گئی ہے اور فلور ملز بن گئی ہیں جہاں گندم سے سفید آٹا نکالا جاتا ہے، روٹی بھی ربڑ کی طرح سخت ہوتی ہے جو آسانی سے ہضم بھی نہیں ہوتی اور ساتھ ساتھ بیماریوں کا باعث بھی بنتی ہے۔
کریم خان کی بات میں سائنسی بنیاد پر کتنی حقیقت ہے اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر اکمل خان نے کہا کہ گندم کے دو حصے ہیں، ایک چھلکا جو فائبر ہے دوسرا اندرونی حصہ جو سٹارچ ہوتا ہے، ”گندم کو جتنا چھان لیا جاتا ہے شوگر اور بی پی مریض کے لیے خطرناک ہوتا ہے، سرخ آٹا سب سے اچھا ہوتا ہے لیکن جہاں تک وزن بڑھنے کی بات ہے تو گندم ہر کسی کا وزن نہیں بڑھاتی کیونکہ وزن کا تعلق جینز سے ہے اور ہر کسی کا مختلف ہونے کی وجہ سے وزن بڑھنے کے چانسز بھی مختلف ہوتے ہیں، جہاں تک امریکہ اور یورپ کا تعلق ہے تو وہاں لوگ گندم نہیں کھاتے لیکن جسم کے لیے ضروری فائبر آلو سے پوری کرتے ہیں اس لئے جن کا وزن آلو یا گندم سے بڑھنے کا خدشہ ہو تو وہ ایسی اشیاء کا استعمال کریں جن میں فائبر ہو کیونکہ فائبر کی ایک خاص مقدار جسمانی صحت کے لے لئے ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان میں گندم سے پرہیز بہت مشکل ہے، یہ یہاں کی پسندیدہ خوراک ہے۔
دوسری جانب لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن پروفیسر بشری خلیل نے بتایا کہ گندم ایک بھرپور غذا ہے اور یہ روزانہ استعمال ہونے والی غذا ہے لیکن جہاں تک نقصان یا مضر صحت ہونے کی بات ہے تو ہر وہ کھانے کی چیز جس کا استعمال مقدار میں بڑھ جائے نقصان دہ ہے، گندم میں بھی ریشہ اور فائبر وافر مقدار میں پایا جاتا ہے، وٹامن کا بھی بہت بڑا زریعہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سفید آٹے کی جگہ چکی کا سرخ آٹا استعمال کرنا چاہیے، اس میں بورا زیادہ ہوتا ہے جو صحت اور نظام ہضم کے لیے نہایت ہی فائدہ مند ہے، شوگر کے مریضوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ سرخ آٹا استعمال کریں اس کے ساتھ ساتھ یہ کولون کینسر سے بھی بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، سفید آٹے سے بنی ہوئی اشیاء جیسے بیکری بسکٹس وغیرہ کا کم سے کم استعمال کرنا چاہیے۔
بشریٰ خلیل کے مطابق گندم بے حد طاقتور چیز ہے لیکن یہ ان لوگوں کے لیے جو دن رات سخت جسمانی مشقت کرتے ہیں جبکہ ان لوگوں کے لیے جو آرام دہ زندگی گزارتے ہیں یا جسمانی ورزش کم ہے ان کے لیے زیادہ گندم کا استعمال نقصان دہ ہے، سیلیک واحد مرض ہے جس میں گندم مکمل بند کی جاتی ہے اور سخت پرہیز کا کہا جاتا ہے، سیلیک مرض جسے گلوٹن سینسیٹو یا گندم سے الرجی کہتے ہیں اس بیماری میں مریض کے آنتوں میں الرجی کی وجہ سے سوزش ہوتی ہے اور وہ خوراک کو جذب نہیں کرتا، یہ مرض ان لوگوں کو ہوتا ہے جو گلوٹن جیسے گندم، جوار، جو، دلیے کی پروٹین برداشت نہیں کر پاتے، دراصل خوراک میں گلوٹن کی موجودگی سے انہضام کی نالی میں الرجی ہو جاتی ہے، آنت کی جھلی کو الرجک کر کے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچاتی ہے، یہ مرض دنیا بھر میں موجود ہے۔