خیرالسلام
قربان جاؤں کپتان کی اس ادا پے، جس نے کمال مہارت سے اپنی حکومت کی غلط معاشی، خارجہ اور داخلہ پالیسیوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کو غیرملکی سازش اور بیانیے کا لبادہ پہنا کر خاموشی سے کھسکنے میں عافیت جانی۔ اور اب موجودہ حکمران جماعت کے سیاسی زعما ملک کی ڈولتی معاشی صورتحال کو سابقہ حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال کر ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی انتہائی سخت شرائط کے سامنے سر تسلیم خم کر کے مملکت خداداد کو ان کے ہاں گروی رکھ دیا۔ تاہم اب سوال یہ ہے کہ موجودہ حکمراں جماعت عوام کو ریلیف دینے میں کتنی سنجیدہ ہے، روٹی کپڑا مکان جیسی بنیادی سہولیات کو عوام کی دہلیز تک رسائی ریاست کے اولین فرائض میں شامل ہوتی ہے لیکن یہاں تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہے یعنی ہر مرتبہ بیچارے عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔
سابقہ حکومت کی غیرلچکدار پالیسیوں سے تنگ عوام کو نئی قیادت سے ریلیف ملنے کی جو تھوڑی بہت امید ہو چلی تھی وہ بھی تیل کی قیمتوں میں پے در پے اور لگاتار اضافے نے ہوا میں اڑا دی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پہلے ہی عوامی حلقوں کیلئے کسی وبال جان سے کم نہ تھا اور اب کی بار یہ بالکل ناقابل برداشت ہو گیا ہے اوپر سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کر دیا ہے کہ انہیں عوامی تشویش کا ادراک ہے لہذا وہ بالکل ٹینشن نہ لیں کیونکہ اگلے تین چار ماہ کے دوران حالات بالکل ان کے کنٹرول میں ہوں گے۔ گویا دبے الفاظ میں موصوف کا اشارہ انہیں چپ رہ کر مزید برداشت کرنے کی جانب ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں مہنگائی کی سب سے بڑی ناقد موجودہ حزب اقتدار جماعت تھی اور آج وہ سب کچھ بھلا کے اپنے ہاتھوں مہنگائی کے اسباب کھلے عام پیدا کر رہی ہے۔ اور آج کی حزب اختلاف دور بیٹھ کر عوام کی بے بسی کا تماشہ دیکھ کر زیر لب مسکرا رہی ہے۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دار کے (کبھی تم تھے کبھی ہم) کے اس ڈرامے سے مجھے اس کسان کا واقعہ یاد آتا ہے جس نے دودھ کے لیے گھر میں بھینس پال رکھی تھی۔ کسان خالص اور تازہ دودھ پینے کا خود بھی شوقین تھا اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتا تھا۔
کسان اچھا خاصا شغلی بندہ تھا۔ اپنے شوق کی تکمیل کی خاطر اس نے بندروں کی ایک جوڑی پال رکھی تھی۔ ایک دن اس نے بیوی سے کھیر کھانے کی فرمائش کی چونکہ گھر میں تازہ اور گاڑے دودھ کی وافر مقدار موجود تھی لہذا وفا شعار بیوی نے رات کو ڈھیر ساری کھیر تیار کر کے اسے آٹھ دس پلیٹوں میں ڈال کر ٹھنڈا ہونے کے لئے باہر صحن میں رکھ دیا۔ اور اس کے اوپر سے لگن رکھ دیا تاکہ کھیر حشرات یعنی چپکلی یا چوہوں وغیرہ سے محفوظ ہو چونکہ اس وقت فرج کی سہولت موجود نہیں تھی لہذا کھانے پینے کی چیزوں کو خراب ہونے سے بچانے کی خاطر گھر کی عورتیں زیادہ تر یہی طریقہ اپناتی تھیں۔ دن بھر کے کام کاج اور تھکن سے چور کسان نے بیوی بچوں کو یہ کہہ کر جلدی سلا دیا کہ صبح سویرے ٹھنڈی کھیر کھانے سے لطف اندوز ہوں گے۔ گھر کی تمام بتیاں بجھ چکی تھیں لیکن صحن والی بتی ابھی جل رہی تھی۔ آدھی رات کو بندروں کی جوڑی معمول کی مٹرگشت پر نکلی، ٹہلتے ٹہلتے دونوں کھیر والے لگن کے پاس پہنچے۔ کھیر کی میٹھی اور بھینی خوشبو نے بندروں کو بے حال کر دیا۔ اور دونوں لگن اٹھا کر کھیر کی پلیٹوں پر جھپٹ پڑے، دو تین پلیٹوں پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد دونوں کو خیال آیا کہ اگر کسان نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو مار مار کے دونوں کا کچومر بنا دے گا لہذا طے یہ ہوا کہ باری باری کھایا جائے۔ پہلے بندر کی کھیر کھانے کی باری تھی لہذا بندریا ایک کونے میں پڑی سیڑھی پہ چڑھ کے کسان کے باہر آنے کی چوکیداری کرنے لگی۔
اب یہ سلسلہ باری باری چلتا رہا 8، 9 پلیٹ اڑانے کے بعد بندروں کو یکدم خیال آیا کہ کھیر کو غائب پا کر کسان کا گمان فوراً ان کی جانب جائے گا لہذا اس سے بچنے کی خاطر یہ ترکیب سوجھی گئی کہ باقی ماندہ واحد پلیٹ میں رکھی کھیر کو بھینس کے بچے (کٹے) کے منہ پہ مل کے خود تماشہ دیکھ لیں لہذا اسی ترکیب پر من و عن عمل کیا گیا۔ کسان صبح سویرے نیند سے بیدار ہوا تو اس کے قدم صحن میں پڑھے کھیر کے برتنوں کی جانب اٹھ گئے لیکن خالی پلیٹیں دیکھ کر وہ غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد کسان کی نظر کٹے کے منہ پہ پڑی۔ کسان نے آؤ دیکھا نا تاؤ، فوراً سلطان راہی مارکه کا ایک بڑا گنڈاسا ہاتھ میں لے کر کٹے کی جانب بڑھنے لگا۔ ادھر مالک کو اپنی جانب دیکھ کر رات بھر کا بھوکا پیاسا بھینس کا بچہ مارے خوشی کے مچھلنے لگا تاکہ اسے ماں کیلئے چھوڑ کر چند قطرے دودھ پینے کا موقع ہاتھ آئے، لیکن غصے سے شرابور کسان نے اس بےدردی کے ساتھ بھینس کے بچے کو مارنا شروع کیا کہ بیچارے کٹے کی چیخیں نکل گئیں۔ کھونٹے سے بندے کٹے کی بے بسی دیکھ کر بھینس کی آنکھیں ضرور پرنم تھیں لیکن دوسری جانب سیڑھی کے اوپر بیٹھے بندر یہ تماشہ دیکھ کر زیر لب ہنس رہے تھے۔
ویسے آپس کی بات ہے یہاں کھونٹے سے بندہ ہوا کٹا کوئی اور نہیں بیچارے عوام ہیں جنہیں مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بے رحم اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے بار بار پھینٹی لگائی جاتی ہے۔ جبکہ بندروں کی مثال حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی ہے جو باری باری اقتدار میں آ کر اپنی تجوریاں بھرنے کی خاطر عوام کی چمڑی ادھیڑتے ہیں۔ سیاست کے مزے لوٹنے والے ان افراد کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عوام بھوک سے مر رہے ہیں یا وہ اجتماعی خودکشیوں کے ذریعے اس ظالم اور بے رحم سماج سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں فکر ہے تو صرف اور صرف اپنا پیٹ بھرنے کی لیکن انہیں شاید ہی ادراک ہو کہ وہ جوع البقر کا شکار ہیں۔