فیٹف کا گرین سگنل: مگر منزل ابھی دور ہے!
حنا رؤف
پاکستان کے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل شروع ہو چکا، اور بہت جلد وائٹ لسٹ میں آ جائے گا۔ پھر پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہو گا اور ملک کی معیشت بھی بہتر ہو جائی گی۔
دوسری جانب جب سے یہ حوصلہ افزا خبر سامنے آئی ہے سیاسی جماعتوں سمیت مقتدر حلقے بھی اس اہم پیش رفت کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ پچھلی حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کے اراکین حماد اظہر، شوکت ترین اور فواد چوہدری بشمول پارٹی چیئرمین عمران خان بھی اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پچھلے چار سالوں سے اس پر کافی محنت کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ فٹیف نے پاکستان کو گرین سگنل دے دیا ہے۔
اس کے علاوہ حکمران جماعت مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپل پارٹی بھی اس کا کریڈٹ لے رہی ہیں۔ وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے پاکستانی قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ فیٹف نے پاکستان کے دونوں ایکشن پلان کو مکمل قرار دے دیا ہے۔
اس حوالے سے وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ پاکستان اس رفتار کو جاری رکھنے، معیشت کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام پاکستانیوں کیلئے خوشی کا دن ہے، قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، فیٹف نے پاکستان کو تمام نکات پر کلیئر کر دیا ہے جس کے بعد فیٹف پروسیجر کے تحت پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، توقع ہے اکتوبر تک گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔
حنا ربانی کھر کا مزید کہنا تھا کہ اب فیٹف پروسیجر کے مطابق ایک تکنیکی جائزہ ٹیم پاکستان بھیجی جائے گی، ہماری پوری کوشش ہو گی کہ یہ ٹیم اکتوبر 2022 کے فیٹف پلینری سائیکل سے پہلے اپنا کام مکمل کریں اور ہم نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا، اس کے ساتھ ہی اکتوبر 2022 میں ہمارا فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل اختتام کو پہنچے گا۔
دوسری جانب پاکستان کی فورسز کا بھی اس میں کلیدی کردار رہا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ سنہ 2019 میں ڈی جی ایم او کے ماتحت جی ایچ کیو میں حکومت پاکستان کی درخواست پر ایک سیل بنایا گیا تھا۔
اپنے انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ 30 سے زائد محکموں اور وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان کوآرڈینیشن کا میکنزم بنایا گیا، سیل نے دن رات کام کر کے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر موثر لائحہ عمل بنایا جس پر تمام اداروں نے عمل کیا اور اس کی وجہ سے قانون بنا۔۔۔ ان اقدامات کی وجہ سے ترسیلات میں تاریخی بہتری آئی۔
فیٹٰف ہے کیا؟
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ہزارہ یونیورسٹی کے پروفیسر او ماہر معاشیات ڈاکٹر کاشف امین نے بتایا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس 1989 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں جی سیون (G_7) ممالک نے قائم کیا، بعد میں تعداد بڑھا کر سولہ کر دی گئی جبکہ اب انتالیس تک پہنچ چکی ہے، ”پاکستان ایف اے ٹی ایف سے وابستہ ایشیاء پیسفک گروپ کا حصہ ہے اس طرح اس تنظیم کی بلاواسطہ ایک سو اسی ممالک تک وسعت موجود ہے۔ ٹاسک فورس کے قیام کا مقصد منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ اقدامات کرنا ہے۔ ہر رکن ملک میں مالیاتی قوانین کی یکساں تعریف پر عملدرآمد کیا جائے اور ان پر یکساں طور پر عمل بھی کیا جائے تاکہ دنیا میں لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہونے والی دولت کی نقل و حرکت کو مشکل ترین بنا دیا جائے اور لوگوں کے لیے اس قسم کی دولت رکھنا ناممکن بن جائے۔”
ڈاکڑ کاشف امین نے مزید بتایا کہ فٹیف کی وجہ سے دہشت گرد گروہوں کی فنڈنگ کافی حد تک رک گئی ہے کیونکہ بنک اب ان خطرات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ حکام کو بھی اب یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کی تحقیقات کر سکیں، فٹیف ایک طویل عرصے سے ممالک کو مغربی سیکورٹی معیارات پر عمل درآمد کے لیے مجبور کر رہا ہے۔
فیٹف ہم سے چاہتی کیا ہے؟
ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی مالی امداد کرنے والے لوگوں اور اداروں کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے۔ پاکستان ایسے اقدامات بھی اٹھاتے ہوئے نظر آئے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خطرات کی سنگینی کا ادارک کرتے ہوئے ان پر کڑی نظر رکھ رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کا یہ بھی مطالبہ ہےکہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر دولت اور اثاثے منتقل کرنے والے ذرائع کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟
ٹی این این کو اس حوالے سے بتاتے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر کاشف امین نے کہا کہ اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل جاتا ہے، تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ملک کی ساکھ بہتر ہو گی، گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے ملک کے بینکنگ نظام اور مالی نظام پر سوالات نہیں اٹھائے جائیں گے۔ اسی طرح منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو اعتراضات اٹھائے جا رہے تھے، ان اعتراضات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، پاکستان کے لیے یورپی ممالک کی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اس طرح مغربی ممالک کے سرمایہ کار سیاحت، مذہبی سیاحت اور دوسرے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان 2008 میں، مشرف کے دور میں پہلی بار ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنا تھا تاہم ایک سال بعد نکلنے میں کامیاب رہا، اس کے بعد 2012 سے دو ہزار پندرہ تک جبکہ آخری مرتبہ جون 2018 میں پاکستان کو اس لسٹ کا حصہ بنایا گیا تھا۔ فیٹف کو پاکستان میں کئی حلقے سیاسی حربہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم معاشی اور مالی امور کے ماہرین اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ان کے خیال میں گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لئے معاشی اور مالی فوائد کے راستے کھل سکتے ہیں۔