کورونا وباء کے دوران کون سے کاروبار عروج پر تھے؟
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان میں کورونا وباء کے دوران بیشتر کاروبار سخت متاثر ہوئے تھے لیکن ان میں صفائی ستھرائی سے متعلق اشیائے ضروریہ کے کاروبار میں اضافہ ہوا تھا جس سے نہ صرف معیشت پر کسی حد تک مثبت اثرات مرتب ہوئے بلکہ یہ کاروبار غریب گھرانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی بنا ہوا تھا۔ ان میں سے آن لائن میڈیم کے زریعے مختلف پراڈکٹس کی خرید و فروخت، ماسک، سینیٹائزرز اور ڈیٹول وغیرہ کے کاروبار شامل تھے۔
اس حوالے سے ڈی آئی خان کی مکین آن لائن کاروبار کرنے والی خاتون سارا نے بتایا کہ وہ اپنے گھر پر بوتیک کا کاروبار کرتی ہیں، جب کورونا وباء پھیل گئی تو ان کے گھر پر خواتین کا رش کم ہو گیا کیونکہ شوہر یا گھر کے دیگر افراد ان کو آنے جانے سے روکتے تھے تو ان کاروبار متاثر ہوا۔
سارا نے بتایا کہ اس وقت ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ وہ فیس بک کے ذریعے آن لائن کاروبار شروع کریں تو اسی طرح خواتین آن لائن کپڑے اور دیگر ملبوسات منگواتی تھیں اور انہیں ان کے گھر آنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب کوئی خاتون میری فیس بک سٹیٹس دیکھتی تو میسیج کے ذریعے وہ مجھ سے کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ منگوا لیتی تھی، اس طرح سماجی فاصلوں کا بھی خیال رکھا جاتا تھا اور میرا کاروبار بھی چل جاتا تھا، "آن لائن کاروبار فزیکل کاروبار سے بہتر ہے کیونکہ بیشتر اوقات خواتین نرخ فکسنگ کے دوران زیادہ بحث کرتی ہیں جبکہ آن لائن کاروبار میں یہ مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ فکس ریٹ دیکھ کر پیسے بجھوا دیتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں بھی آن لائن کاروبار جاری رکھیں گی اور جو خواتین گھر میں بیٹھی ہیں اور سوشل میڈیا کا استعمال جانتی ہیں تو وہ بھی یہ کاروبار آسانی سے کر سکتی ہیں لیکن اس میں زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
شمالی وزیرستان میں ماسک اور سینیٹائزر کے دکارندار سیاب داوڑ نےبتایا کہ پہلے ان کا کاروبار عروج پر تھا لیکن اب کاروبار ماند پڑ گیا ہے جس کی وجہ کورونا وباء کا خاتمہ ہے، اس کے علاوہ صفائی سے جڑی اشیاء کا کاروبار اچھی طرح ہوتا تھا کیونکہ ان چیزوں کا استعمال بے حد زیادہ تھا۔
ایک خاتون شمیم نے پشاور سے بتایا کہ وہ کورونا وباء کے دوران ماسک بیچتی تھیں، ایک پیٹی وہ ایک ہزار روپے میں خریدتی تھیں اور پھر اس سے تقریباً 10 سے 12 ہزار روپے تک بنا لیتی تھیں لیکن اب وہ کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
اپنے ہاتھوں سے ماسک بنانے والی مہرین نے بتایا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے ماسک کی سلائی کرتی تھیں جس کے بعد ان کے والد بازار میں وہ فروخت کرتے تھے لیکن جب کورونا وباء میں کمی واقع ہوئی تو ان کا کاروبار بھی متاثر ہونے لگا اور اب ان کے والد پشاور میں سبزی فروخت کرتے ہیں۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب کورونا وباء ختم ہو گئی تو ان چھوٹے کاروباروں سے جڑے افراد کا کاروبار کیسے متاثر ہوا اور ان کے کاروبار بحال کرنے کیلئے چیمبر آف کامرس یا حکومتی سطح پر کون سے اقدامات اُٹھائے گئے تھے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں چیمبر آف کامرس کے سیکرٹری جنرل خواجہ محمد سیٹھی نے بتایا کہ کورونا وباء کے دوران ماسک، سینیٹائزرز، ڈیٹول اور اس کے ساتھ دیگر سامان کے کاروبار میں اضافہ ہوا تھا اور ان اشیاء نے کورونا وباء کے دوران معیشت میں اہم کردار ادا کیا تھا، "اس دوران پانچ روپے کا ماسک 50 روپے سے اوپر فروخت کیا جاتا تھا، یہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن پھر بھی جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے معیشت کو زیادہ فائدہ ہوا تھا لیکن اس کے برعکس دیگر کاروباروں کو سخت نقصان بھی پہنچا تھا۔”
انہوں نے کہا کہ کورونا سے متعلق کاروبار ختم ہونے سے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس سے بیشتر غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور زیادہ تر وہ بچے وابستہ تھے جن کے سروں پر والد کا سایہ نہیں تھا لیکن ان کے لئے اب تک حکومت نے روزگار دینے کے مواقع فراہم نہیں کئے تو ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان لوگوں کا سوچے اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرے۔
انہوں نے کہا کہ جتنے بھی کاروبار کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے اب وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو رہے ہیں لیکن موجودہ مہنگائی اور ٹیکس میں اضافے سے پھر کاروبار پر منفی اثرات پڑیں گے۔