دو ہفتوں میں 200 سے زائد جنگلات میں آگ، 14,430 ایکڑ رقبہ متاثر
پشاور: گزشتہ دو ہفتوں کے دوران خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں 200 سے زائد جنگلات میں آگ نے 14,430 ایکڑ رقبے پر جنگلات اور چراگاہوں کو نقصان پہنچایا۔
محکمہ جنگلات، ماحولیات اور جنگلی حیات کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جنگل میں لگنے والی آگ کے 210 واقعات میں سے تقریباً 55 آتشزدگیاں مقامی لوگوں نے جان بوجھ کر شروع کیں اور 12 کو خشک موسم کی وجہ سے بتایا گیا جب کہ مزید 143 مقامات پر آگ لگنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی، یہ اعداد و شمار 23 مئی سے 9 جون کے درمیان محکمہ کے ذریعہ تیار کردہ روزانہ کی صورتحال کی رپورٹس پر مبنی ہیں۔
محکمہ کے ترجمان لطیف الرحمان کے مطابق کہ متاثرہ علاقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ جنگلات میں لگنے والی آگ سے جنگلات کو ہونے والے نقصان کا معاوضہ حکومت ادا کرے گی۔
ڈویژنل جنگلات کے عملے کے ارکان سے موصول ہونے والی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ افواہ تھی کہ حکومت جنگل کی آگ میں جلے ہوئے ایک سبز درخت کے لیے 100,000 روپے ادا کرے گی۔
اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ ایسی رپورٹس میں کوئی حقیقت نہیں ہے انہوں نے مزید کہا کہ ان افواہوں کی وجہ سے لوگوں کی جانب سے آگ لگانے کے 55 واقعات رونما ہوئے۔
ترجمان نے کہا کہ محکمہ نے ایف آئی آر درج کرائی ہیں اور کم از کم 21 افراد کو آگ لگانے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے، یہ افواہیں بے بنیاد ہیں اور حکومت نے جنگل کی آگ میں تباہ ہونے والے درختوں کے لیے کسی معاوضے کا اعلان نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ جنگلات اور ضلعی انتظامیہ باقی 143 آتشزدگی کے واقعات کی وجوہات کی چھان بین کر رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ایسی آگ انسانوں کی تلویث کی وجہ سے لگی یا خشک موسم کی وجہ سے لگی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر آگ خشک گھاس میں لگی آگ تھی، جس میں 68 فیصد کمیونل اور نجی زمینوں میں اور 73 فیصد سے زیادہ متاثرہ علاقے بھی یا تو کمیونل یا نجی اراضی تھے۔ رپورٹ کے مطابق، بڑھتا ہوا درجہ حرارت، جو کہ موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم اشارہ ہے، زمین سے زیادہ نمی کو بخارات میں تبدیل کر دیتا ہے، مٹی کو خشک کر دیتا ہے، اور پودوں کو مزید آتش گیر بنا دیتا ہے۔ ایک ہی وقت میں، موسم سرما کی برف تقریباً ایک ماہ پہلے پگھل رہی ہے، یعنی جنگلات طویل عرصے تک خشک ہو رہے ہیں۔ چونکہ خشک سالی اور گرمی گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کے ساتھ جاری ہے، محکمہ جنگلات کو آئندہ برسوں میں اس طرح کے مزید واقعات کا اندیشہ ہے۔
رپورٹ میں محکمہ موسمیات پاکستان کا ڈیٹا بھی رکھا گیا ہے جس میں ماحولیاتی پیٹرن میں تبدیلی کی وجہ سے پچھلے چند مہینوں میں ریکارڈ کم بارشیں ہوئی ہیں، اپریل 2022 کے لیے قومی بارشیں معمول سے 74 فیصد کم تھیں اور اسے 1961 کے بعد دوسرے خشک ترین مہینے کا درجہ دیا گیا، جب کہ پنجاب (89 فیصد)، خیبر پختونخوا (79 فیصد)، بلوچستان (78 فیصد) ، آزاد جموں کشمیر (56 فیصد) اور گلگت بلتستان (51 فیصد)کے ساتھ ملک کے تمام حصوں میں بارشیں معمول سے بہت کم رہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیاحوں کا تفریحی مقصد کے لیے جنگلوں کا دورہ حادثاتی طور پر جنگل میں آگ لگنے کا سبب بنتا ہے اور اس سال خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات کی جانب سے مارچ اور اپریل کے دوران سیاحوں کو آگاہی دینے کے لیے سوشل میڈیا، بینرز، پمفلٹس اور بروشرز کی تقسیم کے ذریعے سب سے بڑی آگاہی مہم چلائی گئی جس کو سول سوسائٹی نے بھی سراہا ہے۔
جنگلات پر منحصر کمیونٹیز روایتی طور پر مویشیوں کے لیے نرم گھاس حاصل کرنے کے لیے خشک گھاس کو جلا دیتی ہیں جس کے نتیجے میں بعض اوقات ہواؤں اور برادریوں کے غیرمعمولی رویے کی وجہ سے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔
آبادی میں اضافے کی وجہ سے زرعی اراضی کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور زمینوں کو صاف کرنے کے لیے آگ لگائی جاتی ہے، (اپریل تا جون) پودوں والی زمینوں کو زرعی کھیتوں میں تبدیل کرنے کے لیے عام طور پر مقامی دشمنیوں کی وجہ سے متحارب گروہ دوسرے کی زرعی پیداوار اور درختوں کو جلا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں جنگلات میں بہت بڑی آگ لگ جاتی ہے، شیرانی اور شانگلہ کے جنگلات میں آگ لگنے کی یہی وجہ سامنے آئی ہے۔
محکمہ جنگلات اور محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کو نامزد علاقوں کی حفاظت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اس لیے اگلے فائر سیزن کے آغاز سے پہلے پرائیویٹ اور کمیونل جنگلات مالکان کے ساتھ ایک مشترکہ ایکشن پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں دونوں کے پہلے سے طے شدہ کردار اور ذمہ داریاں تفویض ہوں جس سے پرائیویٹ جنگلی علاقوں میں آگ کا مقابلہ موثر اور بروقت ہو سکے۔
بلین ٹری فاریسٹیشن پروجیکٹ اور اب 10 بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کے تحت دیہی علاقوں میں غیرمستفید مالکان کی جائیداد پر بہت بڑے پودے لگائے گئے ہیں جنہیں پہلے دوسرے غیرمالکان اپنے مویشیوں کے لیے چراگاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس سے مقامی لوگوں کا ذاتی تنازعہ پیدا ہو گیا ہے جو آگ لگنے کے واقعات کی وجوہات میں شامل ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں سیاحتی و مہمان نوازی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافے نے نجی رہائش کے ساتھ ساتھ ہوٹلوں وغیرہ کے بڑے پیمانے پر قیام سے جنگلات، پہاڑوں اور جنگلاتی علاقوں کو نقصان پہنچا ہے۔