پیار محبت، ضد انا اور انسانی مزاج
ڈاکٹر سردار جمال
انسانی مزاج بھی عجیب ہے جو قدم قدم پر انا کا سامنا کرتا رہتا ہے، یہ انا انسان کے لئے چیلنج بنتی جاتی ہے۔ انا کی کٸی اقسام اور روپ ہیں، اکثر اوقات انسان لاشعوری طور پر انا سے دوچار ہوتا رہتا ہے، اگرچہ لاشعوری عوامل ثانوی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب بچے کو بار بار نصیحت کی جاتی ہے کہ سکول کا کام کیا کرو بلکہ اساتذہ، والدین اور دوسرے سب بڑے یہی بولتے رہتے ہیں کہ ہوم ورک کیا کرو تاکہ زیادہ نمبر لے کر کلاس میں اول پوزیشن لے سکو۔ بالکل اسی طرح ہر بچے کو ایسا ہی بولا جاتا ہے۔ ایک نہ ایک دن بچے سوچ لیتے ہیں کہ "اول” تو ایک ہی بچہ آ سکتا ہے اور ہم تو کلاس میں پچاس لڑکے ہیں، تمام کے تمام تو اول پوزیشن نہیں لے سکتے، لہذا وہ ہوم ورک چھوڑ دیتے ہیں۔
بچے کو بار بار کہا جاتا ہے کہ سگریٹ مت پینا، چرس مت پینا، ہیروٸن اور آٸس سے دور رہنا، بچے ان تمام چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لیکن بار بار تاکید کی وجہ سے جوان منشیات میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم بچوں کو ان چیزوں کے بارے میں بتاتے چلے آ رہے ہیں جن کے بارے میں وہ جانتے نہیں ہیں۔
جہاں فحاشی کے خلاف بولا جاتا ہے وہاں فحاشی پروان چڑھتی ہے، ہمارے ہاں کہیں بھی کوٸی ادارہ، سکول، کالج، یونیورسٹی نہیں ہے جہاں غلط کام سکھانے کی تربیت دی جاتی ہے، پھر بھی ہر بندہ غلط کام کرنے کا ماہر بن چکا ہے اور پورے معاشرے میں کسی نہ کسی حد تک قتل و غارت، راہزنی اور زنا وغیرہ کا بازار گرم ہے۔
ہم دیکھتے ہیں جہاں لکھا گیا ہو کہ ادھر پیشاب کرنا منع ہے تو ادھر زیادہ پیشاب کیا جاتا ہے، جہاں "نو پارکنگ“ لکھا ہو تو ادھر زیادہ گاڑیاں پارک کی جاتی ہیں، جہاں "ہارن بجانا منع ہے” لکھا ہے تو وہاں زیادہ ہارن بجاٸے جاتے ہیں، جہاں منشیات اور خاص کر اس دور کا نیا نشہ ”آئس“ کا کوئی تصور نہ ہو مگر جب وہاں بار بار سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں اور اس بارے بولا جاتا ہے کہ آئس ایک خطرناک نشہ ہے، اس سے دور رہیے، مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئش نشہ کرنے والے بے خوابی میں اس لئے مبتلا ہو جاتے ہیں کہ آئس نشہ لینے سے جسم کی طاقت دس گنا ہو جاتی ہے اور وجود پوری طرح چوبیس گھنٹے الرٹ رہتا ہے، دراصل اس قسم کی باتیں کرنا جوانوں کو نشے کی طرف مائل کرنے کے لئے ایک شعوری کوشش ہے کیونکہ جب جوان جسم کی چستی اور دس گنا طاقت کے بارے میں سنتے ہیں تو پھر کون ہو گا جو انہیں اس لعنت سے بچا سکے گا؟
یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ پہلے سے نشہ سے بے خبر جوانوں کو نصیحت کے طور پر کہا جائے کہ فلاں نشہ بہت خطرناک نشہ ہے، جو جسم کو لاغر اور کمزور بنا دیتا ہے اور اگر آپ نشہ کے عادی بن گئے تو پھر آپ کسی کام کے نہیں رہیں گے، بعض جوان اس قسم کی باتیں سن کر اس نشہ کو بطور چیلنج قبول کرتے ہیں اور پھر سینہ تھان کر فیصلہ کرتے ہیں کہ اب اس نشہ سے مقابلہ کرنا ہے، دیکھتے ہیں کہ یہ نشہ ہمارا کیا بگاڑتا ہے، یہ انا کی وہ قسم ہے جس کو للکارنا یا چیلنج دینا کہا جاتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خطرہ مول لینے میں دلچسپی لیتا ہے۔
میں نے بذات خود ایک آئس ایڈکٹڈ سے پوچھا کہ آپ آئس کیوں پی رہے ہو تو اس نے جواب دیا کہ ہر کوٸی یہی بول رہا ہے کہ آئس بہت خطرناک نشہ ہے جو صحت کو برباد کر دیتا ہے اس لئے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آئس نشہ میرا کیا بگاڑتا ہے۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بچہ بے جا ٹوکنے سے بھی بگڑ سکتا ہے، اور پھر وہ کسی اور سمت میں جا کر بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جن بچوں کو سکولوں میں ڈانٹ یا مارا پیٹا جاتا ہے تو وہ جب گھر آتے ہیں تو اس کی کسر اپنے ہی گھروں میں پوری کر دیتے ہیں اور ناحق چھوٹے بہن بھائیوں سے جھگڑتے ہیں اور ان کو مارتے پیٹتے ہیں، بالکل اسی طرح جو جوان گھر کے اندر بڑوں سے بے عزتی کھاتے ہیں یا کوئی اور جسمانی یا ذہنی تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ باہر آ کر دوسروں کو مصیبت میں مبتلا کر دیتے ہیں، ایسا کرنے کے لئے وہ مختلف قسم کی حرکات و سکنات کرتے رہتے ہیں جن میں ایک منفی حرکت یہ بھی ہے کہ اپنی موٹر سائیکل سے سائلنسر نکال کر لوگوں کو شور و غل کی اذیت میں مبتلا کرنا اپنا معمول بناتے ہیں۔
اگر ہمارے معاشرے کے جرائم پیشہ لوگوں پر نظر دوڑائی جائے اور غور سے دیکھا جائے تو ان لوگوں کا بچپن بہت تکلیف دہ اور اذیت ناک نظر آئے گا، اس قسم کے لوگ غربت زدہ اور یتیم ہوتے اس لئے پیار اور شفقت سے محروم ہوتے ہیں، جب یہ لوگ بڑے بن جاتے ہیں تو پھر اپنی انا کی خاطر انتقامی زندگی بسر کرنے پر اتر آتے ہیں اور معاشرے کے لئے ناسور بن کر قتل و غارت اور چوری ڈکیتی جیسے خطرناک جرائم کرنے پر اتر آتے ہیں۔
کسی کو تھپڑ دینے یا ڈانٹنے سے یہ مت سوچنا کہ میں نے کسی کو دباؤ میں رکھا اور اب یہ بندہ میرا محکوم بن جائے گا بلکہ ایسا کرنے سے آپ نے غم و غصہ کے زہریلے بیج بو دیئے جو کسی بھی وقت کانٹے دار درخت کی شکل میں اگ کر معاشرے اور آپ سب کے لیے ابال جان بن جائیں گے، اس کی مثال پوٹینشل توانائی کی طرح ہے جو کسی بھی وقت حرکی توانائی میں منتقل ہو سکتی ہے، باالفاظ دیگر یہ انسان کی چھپی ہوئی انا ہوتی ہے اور اس چھپی ہوئی آنا سے آج دنیا بدامنی کی طرف چلی گئی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے، آدم کے بچوں کے ساتھ پیار اور محبت کرنے کی اشد ضرورت ہے اور دوسری جو اہم اور ضروری بات ہے وہ یہ ہے کہ بے جا نصیحت کرنے سے گریز کیا جاٸے، نصیحت وہ اچھا عمل ہے جو ایک بندہ خود نہیں کر سکتا اس لئے وہ چاہتا ہے کہ یہ اچھا عمل میری جگہ کوئی اور کرے، اس لئے نصیحت میں کوئی جان نہیں ہوتی ہے بلکہ نصیحت سن سن کر بچے تنگ آ کر خودکشی کرتے ہیں یا گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ نصیحت کی جگہ تلقین سے کام لینا ہو گا کیونکہ تلقین کا مطلب ہے اپنے آپ کو دوسروں کے لٸے اچھے کاموں میں عملی نمونہ بنا پیش کرنا تاکہ دیکھنے والے آپ سے متاثر ہو کر آپ جیسا اچھا انسان بننے کی کوشش کریں ورنہ انسانی فطرت للکارنے کی ہے یعنی انسان کی فطرت الٹ چلنے کی ہے، انسان کو کسی عمل سے منع کرنا اِن ڈائریکٹ برے کاموں کے بارے ترغیب دینے کے مترادف ہے، انسانی فطرت جو صرف ایک چیز سے سنور سکتی ہے وہ ہے صرف اور صرف پیار، محبت اور کچھ بھی نہیں!