سیاستکالم

ضم اضلاع: یہ پاکستان ہے یا چوکِ مزدوراں؟

محمد سہیل مونس

مولانا شیرانی کی بات کہ پاکستان اس چوکِ مزدوراں کی طرح ہے جہاں صبح صادق سے گنتری بیلچہ ہاتھ میں لئے مزدور اس آس میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی تو آئے گا اور ہمیں کام واسطے لے کر جائے گا۔ ہماری فوج کرائے کی، ہماری لیبر سب سے سستی ہر ملک کے لئے تیار حتٰی کہ ہمارا مولوی ہمارا سیاستدان العرض ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والا پیٹ کی دوزخ بھرنے واسطے اسی چوک میں کسی گاہک کا منتظر دکھائی دے گا۔

پاکستان کی حالت تو برسوں سے تھی ہی ایسی لیکن جب سے قبائلی علاقہ جات ضم ہو کر آئے ہیں تو حالات مسلسل رو بہ زوال ہیں، یہ بات اپنی جگہ کہ ضم ہونے سے قبل بھی ان علاقوں میں بسنے والی عوام کی خوب حق تلفیاں ہوئی ہیں لیکن اب جو ملک کا دیوالیہ ہوا چاہتا ہے تو عین ممکن ہے کہ جو پیکجز ان علاقوں کے لئے مختص کئے گئے وہ تو گئے ہی گئے۔ ہم پھر بھی پرامید ہیں کہ اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیتا ہے اور راسخ گمان یہ ہے کہ قیامت سے پہلے یہ علاقہ ضرور خوشی کی کوئی تو نوید سن سکے گا۔

ہمارا تو خواب ہے کہ یہ علاقے پرسکون ہوں، یہاں علم کی روشنی سے محبت کرنے والے بڑھتے چلے جائیں، ملکی ادارے ان علاقوں کی عوام کے دکھوں کا مداوا کریں، یہاں زیتون کے لہلہاتے کھیت ہوں، گنے جنگل ہوں، صنعتی ترقی ہو، ذخائر کی کھوج ہو اور روزگار کے انگنت مواقع ہوں، جہاں سیر و تفریح کے لئے دوردراز علاقوں سے کیا کہ بیرون ملک سے بھی لوگ دیکھنے آئیں۔ یہاں کی آنے والی نسل بھی ملکی اداروں میں بڑی بڑی مسندوں پہ براجمان ہو اور یہی دعا ہے کہ اللہ کرے کہ ایسا ہو اور ان علاقوں کے دن پھر جائیں۔

اب اگر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے تو پہلے سے بھی زیادہ ہمیں عقل و شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا جبکہ اپنی آواز کو ایوانوں تک پہنچانے کے لئے یہاں کے نوجوانوں کو سیاست کے میدان میں ضرور طبع آزمائی کرنا ہو گی۔

آج کے دور میں اپنے اور اپنے علاقے کے مسائل محض فیس بک پر شور و غوغا برپا کرنے سے حل نہیں ہوں گے، ہم انسٹاگرام، فیس بک، یوٹیوب اور دیگر خرافات سے باہر آئیں گے تو اس جانب ہمارا دھیان جائے گا۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گرد و پیش میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کا بیڑا اٹھانا ہو گا، گھر گھر اور محلے محلے جا کر لوگوں کو اپنی قسمت کے فیصلے خود کرنے کا درس دینا ہو گا۔ آپ چاہے سرکاری ملازم ہوں یا کسی نجی ادارے سے منسلک، آپ طالب علم ہوں یا کاروباری عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی بھی شرط یا حد مقرر نہیں، آپ فلاح و بہبود کا کام سرانجام دے سکتے ہیں۔ آپ چند ہم خیال لوگوں کی ایک تنظیم بنا کر بھی اپنے منشور کے تحت کام انجام دے سکتے ہیں، ہاں البتہ تنظیم رجسٹرڈ کرانی ہو تو اراکیں یا ممبران کی عمر میچورڈ ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ اگر آپ پہلے سے نظریاتی طور پر کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں تو اس جماعت کے پلیٹ فارم سے بھی آپ لوگوں کی خیر کے کام کر سکتے ہیں۔ یہ تنظیمیں معاشرے میں سدھار کا باعث بنتی ہیں اور آگے چل کر عوام کی راہنمائی میں فعال کردار ادا کر سکتی ہیں مثلاً یہ تنظیمیں فضائی آلودگی، صاف و شفاف پینے کے پانی کی فراہمی، تعلیم کے حوالے سے بہت سارے کام ہو سکتے ہیں۔

ان تنظیموں سے اگر ایک جانب ہم ظاہری کاموں میں دلچسپی لے کر عوام کی بہبود کے بہت سارے کام کر سکتے ہیں وہاں آنے والی نسل کو سیاسی شعور دے کر اس قابل بنا سکتے ہیں کہ آنے والے دور میں ان پہاڑوں کے بیٹے ملکی اداروں کے اعلیٰ مسندوں پر بیٹھے ہوں۔ ہم اگر سوشل میڈیا پر بیٹھ کر سارا سارا دن خرافات میں ضائع کرتے ہیں اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ انسان کسی دوسرے انسان کی بھلائی سوچ کر حیران کن کام کرے جس سے معاشرے کو بھی فائدہ ہو اور انسان خود پر بھی فخر کر سکے۔

اگر تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو نہایت ہی غریب خاندانوں کے چشم و چراغ زندگی کی انگنت دشواریاں سہہ کر اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں سے وہ دنیا کے فیصلوں پر اثرانداز ہوئے ہیں۔

اگر ہم دنیا کے بڑے راہنماؤں پر ایک نظر ڈالیں تو سب سے پہلے ہمیں نیلسن منڈیلا دکھائی دیں گے جس کا جنم جنوبی افریقہ کے ایک گاؤں کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں ہوا، ابراہم لنکن سابقہ صدر امریکہ کسی دیہات میں پلے بڑے، اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کیسے کیسے موتی کن کن جوہڑوں میں سے نکال کر دنیا پر آشکار کرتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی مٹی بھی کوئی گئی گزری مٹی نہیں، یہاں بھی خان عبد الغفار خان اور صنوبر خان کاکا جی جیسے لوگوں نے آنکھیں کھولیں، اس مٹی نے بھی بڑے بڑے نام پیدا کئے جن کی بدولت ہم نے آزادی تو گورے سے حاصل کی مگر ان کی باقیات نے ہمیں جینے نہ دیا۔ یہ لوگ ہماری جڑوں میں جونک کی طرح بیٹھے ہیں اور ہمارا خون چوس رہے ہیں لیکن اب کے ان کا مقابلہ کرنے باچا خان اپنی قبر سے نکل کر واپس نہیں آئے گا، اب کی بار جو کرنا ہے آپ نے کرنا ہے اپنے لئے اور اپنے آنے والی نسلوں کے لئے۔

آپ اگر سیاسی طور پر اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کچھ نہ کچھ حرکت دکھائی تو برکت ڈالنے والا اللہ ہے، وہ ذات ہر اس بندے کے ساتھ ہے جو جمود کا شکار نہیں، جو مسلسل تگ و دو اور کچھ نہ کچھ ان کے رازوں پر سے پردہ چاک کرنے میں مگن ہو۔

آپ آج ہی اٹھیں اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنی تنظیمیں تشکیل دیں، لوگوں کو متحد کریں اور پھر ایک موقع پر اپنی تنظیمیں رجسٹرڈ کر کے اپنے منصوبوں کو وسعت دیں، حکومتی ادارے اور ڈونرز بھی آپ کی مدد کو آئیں گے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ حالات بڑے گھمبیر ہیں اور لوگ اپنے مسائل میں نتھنوں ڈوبے ہیں لیکن ہیروز ایسے ہی حالات میں پیدا ہوتے ہیں جو ملک و قوم کی تقدیر بدل کے رکھ دیتے ہیں۔

نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button