سیاستکالم

نظریاتی دہشت گردی کیسے کم کی جا سکتی ہے؟

تحریر: انصار یوسفزئی

نظریاتی دہشت گردی کیا ہے؟ نظریاتی دہشت معاشرے کیلے کتنا زہر قاتل ہے؟ پاکستان میں کون کون سی سیاسی اور مذہبی جماعتیں نظریاتی دہشت گردی کا شکار ہیں؟ ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں نظریاتی دہشتگردی کیسے پروان چڑھی؟ اور ایسے کونسے عناصر ہیں جن کو اپنا کر معاشرے میں نظریاتی دہشت کم کی جاسکتی ہے؟ ہم آج کے کالم میں اس کو سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔

آج کل جہاں ہمارے اس تعفن زدہ معاشرے میں کئی اور ناسور پروان چڑھ رہے ہیں ایسے میں نظریاتی دہشت گردی جو کہ معاشرے کو کھوکھلا کے رکھ دیتی ہے، بد قسمتی سے بڑھتی ہی جارہی ہے۔ آج کل ہمارے ہاں ہر دوسرا بندہ مخالفت پر اتر آیا ہے، اختلاف راۓ رکھنا معاشرے کا حسنِ عظیم ہے لیکن مخالفت کرنا یہ معاشرے کیلے کسی ناسور سے کم نہیں- بد قسمتی سے آج کل ہم اختلاف اور تنقید کی بجاۓ مخالفت اور تنقیص پر اتر آئے ہیں ہم مخالف سمت سے آئی ہوئی راۓ کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنی راۓ کو فورس کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ میں خود نظریاتی دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہوں لہذا مجھے اچھی طرح معلوم ہے یہ کتنا خطرناک اور جان لیوا ہوتا ہے۔ خطرناک اور جان لیوا اس لیے ہے کہ آپ کے نظریاتی دشمن آپ کے ارد گرد ہزاروں کی تعداد میں ہوں گے مگر آپ کو نظر نہیں آئیں گے آپ کا سب سے بہترین دوست آپ کا سب سے بڑا نظریاتی دشمن ہو سکتا ہے، اور خرابی اس میں یہ ہے کہ آپ کو اس کا پتا ہی نہیں ہوگا نظریاتی دشمنی ایک حد تک ٹھیک بھی ہے کیوں کہ اس میں آپ کے نظریہ سے اختلاف رکھنے والا اس کو اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے مگر نظریاتی دہشت گردی میں آپ کے نظریہ سے اختلاف رکھنے والا آپ کی جان لینے کے درپے ہوگا، آپ پر باقاعدہ حملہ آور ہوگا، جن کی کئی مثالیں موجود ہیں اور مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں قتل کئے گئے شہید مشال خان اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے جن لوگوں نے مشال خان کو شہید کیا ہے وہ سب نظریاتی دہشت گردی کا شکار ہوچکے تھے- ان لوگوں سے مشال خان کا نظریہ برداشت نہیں ہورہا تھا، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ان کا نظریہ کیا تھا مگر یہ اختیار کسی کے پاس نہیں کہ وہ کسی کے نطریے کا قتل عام کریں۔

نظریاتی دہشتگردی یا نظریاتی دہشتگرد کی سادہ سی ڈیفینیشن ( تعارف) یہ ہے کہ ” ایک ایسا بندہ یا ایک ایسا جتھا جو ایک سیاسی یا مذہبی نظریے کا قائل ہو اور اس نظریے میں وہ انتہا کو پہنچ چکا ہو اور اس کی نظر میں اس کے نزدیک باقی سب نظریات کی کوئی دائمی حیثیت نہیں اور اس کو ختم کرنے کیلے وہ بندہ یا وہ ٹولا آخری حد تک جاسکتا ہے "- نظریاتی دہشت گرد کی ایک اور سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ یہ خود کو عقلِ کل سمجھتا ہے، ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی آتا ہے صرف اسی کو آتا ہے باقی سب لوگ گھاس کھاتے ہیں کے مترادف ہے- نظریاتی دہشت گرد کی ایک اور سب سے بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ باقی سب نظریات ختم ہو جائے اور صرف اس کے نظریے کا وجود قائم رہے جو کہ ناممکنات میں سے ہیں۔- میرے جیسے صحافت کے ایک ادنا طالب علم کی نظر میں اس وقت پاکستان کی سیاست میں دو جماعتیں ایسی ہیں جو نظریاتی دہشتگردی کی بری طرح شکار ہوچکی ہیں جن میں ایک حال ہی میں تحریک عدم اعتماد سے چلتا کرنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے اور دوسری جماعت مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام ہے۔ آپ ان دونوں جماعتوں کی حالیہ ہسٹری اٹھاکے دیکھ لے یہ آپ کو نظریاتی دہشت پھیلاتی نظر آئیں گی  آپ نے کبھی پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی یا کسی اور دوسری سیاسی جماعت کے کسی لیڈر سے عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے ہوئے نہیں سنا ہوگا مگر JUI کے مولانا فضل الرحمن کا عمران خان کو بار بار یہودی ایجنٹ کہنا نظریاتی دہشت کی عکاس ہے۔ اسی عمل کو جاری رکھتے ہوئے JUI کے ورکرز اپنے قائد سے دو قدم آگے ہیں- یہ خود کو عقلِ کل سمجھ کر آپ کی بات سننے کو گوارا نہیں کرتے، یہ اوپر اللّه نیچے اپنے قائد کو خدا تسلیم کر کے بیٹھے ہیں جو نظریاتی دہشت کی انتہا ہے۔

بالکل اسی طرح عمران خان کی جماعت ہے، عمران خان کے ورکرز اور ساتھی اس حد تک نظریاتی دہشت میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ ان کی کل سوچ ان کے اپنے لیڈر پر آکر ختم ہوجاتی ہے انصافی خود اپنی ذات اور اپنے لیڈر عمران خان کو ہر طرح کے معاملات میں عقل کل تسلیم کرنے پر بضد ہے جبکہ حقیقت میں ان کو بہت سے معاملات کے مبادیات تک کا علم نہیں ہوتا عمران خان کا ایک حالیہ بیان کہ ” ملک تین ٹکڑے ہو جائے گا، فوج تباہ ہو جائے گی، اسٹیبلشمنٹ برباد ہو جائے گی اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام زمین بوس ہو جائے گا ” خود ایک نظریاتی دہشت کی عکاس ہے کہ اگر آپ اقتدار میں ہوں گے تو پھر کچھ بھی خطرے میں نہیں لیکن اگر آپ اقتدار سے الگ ہوں گے تو پھر آپ نظریاتی دہشت گرد بن کر سب کچھ خطرے میں ہیں کہ ورد کرتے رہیں گے۔

ان دونوں پارٹیوں میں نظریاتی دہشت پھیلانے کا بنیادی منبع ان کے اپنے لیڈروں کا کیا دھرا ہیں جس کو بعد ان کے بےتکے اور مخبوط الحواس فالوزر اپنے لیڈران کا لب و لہجہ اپنا کر مخالفین کے خلاف نظریاتی دہشت پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں-۔ یقین جانئے نظریاتی دہشت کی وجہ سے ہماری سیاست بہت حد تک گندا اور بے مزہ ہو چکی ہے۔ صورتِ حال اس حد تک آچکی ہے کہ عام آدمی سیاست کا نام سن کر گھبرا جاتا ہے، مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر پچھلے تین چار سالوں سے تواتر کے ساتھ غلاظت سے بھرپور ٹرینڈز چلانا بطور ایک قوم نظریاتی دہشت گردی کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ اگر نظریاتی دہشت گردی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو 2023 کے عام انتخابات میں یہ انتہا کو پہنچ سکتی ہے اور نتیجتاً مشال خان جیسے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا جس سے معاشرے کے اندر نفاق بڑھے گی اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا ہوگی مگر سوال آخر میں یہ ہے کہ ہمارے ہاں نظریاتی دہشت کو کیسے کم کی جاسکتی ہے؟ نظریاتی دہشت کو کم یا ختم کرنے کیلے پارٹی کے لیڈران کو سب سے پہلے بےجا مخالفت چھوڑنا ہوگی، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے حال ہی میں دورہ امریکہ کے دوران عمران خان کے دورہ روس کی حمایت کر کے ایک ایسی مثال قائم کی جس کو باقی لیڈران اپنا کر ملک میں بڑھتی ہوئی نظریاتی دہشت گردی میں کمی واقع ہو سکتی ہے کیوں کہ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ شدید مخالفت کے باوجود بھی اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

لیڈرشپ کی سطح پر جب نظریاتی دہشت موجود ہوگی تو نیچے ورکرز اپنے لیڈر کو دیکھ کر اس آگ میں مزید اضافے کا موجب بنیں گے،- دوئم، لیڈر کو اپنی پارٹی کے اندر ایسے اقدامات اٹھانے چاہئے کہ وہ اپنے ورکرز اور فالورز کو یہ شعور دے کہ آپ اپنے نظریے کا پرچار ضرور کیجئے مگر دوسروں کے نظریات کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھیں، تیسری صورت یہ ہے کہ سرکاری سطح پر نظریاتی دہشت کو ختم کرنے کیلے نصاب میں اس کیلے باقاعدہ ایک سبق ترتیب دی جائے جس میں طالب علموں کو نظریاتی دہشتگردی کے ممنکہ نتائج سے باخبر کیا جائے اور آخر میں اس سنگین ایشو پر پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کرنے سمیت دیگر بڑے فورمز پر نظریاتی دہشت گردی کے عنوان سے باقاعدہ طور پر سیمینارز کا انعقاد کیا جائے اور عوام میں اس بارے شعور اجاگر کیا جائے، نہیں تو نتائج بڑے بھیانک ہوں گے اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں آئے گا جو بہت حد تک آیا بھی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button