محبت، محبت کی تعریف اور محبت کی اقسام!
ڈاکٹر سردار جمال
حضرت عیسی علیہ سلام ایک گرم دوپہر میں کہیں سے گزر رہے تھے۔ تھکن کی وجہ سے وہ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے لگے۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ درخت کس کی ملکیت ہے۔ وہ “میری مگدالین“ کی ملکیت تھی جو ایک فاحشہ عورت تھی۔ اس نے اپنی کھڑکی میں سے اس خوب صورت شخص کو دیکھا۔ اتنا خوب صورت کہ ایسا شاید ہی کبھی کوئی پیدا ہوا ہو۔ وہ متاثر ہوٸی اور نہ صرف متاثر ہوٸی بلکہ جذبات میں آ گٸی۔ وہ باہر آٸی اور حضرت عیسی سے کہا ”آپ یہاں کیوں لیٹے ہوٸے ہیں؟ میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔” حضرت عیسی نے اس کی آنکھوں میں جذبہ اور پیار دیکھا۔۔۔ نام نہاد پیار۔۔۔ انہوں نے کہا اگلی دفعہ جب میں یہاں سے گذرتے ہوٸے تھکن محسوس کروں گا تو میں آپ کے دولت خانے پر حاضر ہو جاٶں گا مگر ابھی ضرورت پوری ہو گٸی ہے اور میں جانے کے لیے تیار ہوں اس لیے آپ کا شکریہ!
اس عورت کو اس میں اپنی توہین محسوس ہوٸی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اور اصل میں اس نے کبھی کسی کو اس طرح دعوت بھی نہیں دی تھی۔ لوگ باگ دوردراز سے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ بادشاہ تک اس کے پاس آتا تھا اور اب ایک فقیر اس کی دعوت ٹھکرا رہا تھا۔ حضرت عیسی ایک فقیر تھے، اس وقت ایک خانہ بدوش تھے اور وہ اس کو انکار کر رہے تھے۔ عورت نے ان سے کہا کیا آپ کو میری محبت کا احساس نہیں؟ یہ پیار بھری دعوت ہے اس لیے آٶ مجھے مت ٹھکراٶ۔ کیا آپ کے دل میں میرے لئے محبت نہیں ہے؟
حضرت عیسی نے اس کے جواب میں کہا: میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ اور حقیقت میں جو لوگ آ کر تم کو اپنی جھوٹی محبت کا یقین دلاتے ہیں وہ تم سے محبت نہیں کرتے، صرف میں تم سے محبت کر سکتا ہوں۔ اور وہ غلط نہیں تھے مگر اس محبت کا ایک الگ معیار تھا۔ اس محبت میں مقابل نہیں تھا۔ دوسرا سرا نہیں تھا۔ اس لیے اس میں تناٶ نہیں تھا، تجسس نہیں تھا، اشتیاق نہیں تھا، محبت ان کے لیے کوٸی رشتہ نہیں بس زندگی کی ہی ایک کیفیت تھی۔
محبت ایک روحانی جذبہ ہے جو دو بندوں کے ارواح کے درمیان مماثلت کا نام ہے۔ اس بارے وحدت الوجود والے واضح ہیں، ان کا دعوی ہے کہ یہ سب کچھ ارواح کا معاملہ ہے جو پچھلے جنم سے چلا آ رہا ہے۔ جب دو ارواح مدتوں بعد دو انسانوں کی شکل میں آمنا سامنا کرتی ہیں تو وہ دو اجسام ایک دوسرے میں دلچسپی لیتے ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے میں ضم ہونا چاہتے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ دو چاہنے والے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے کہ میں اس قسم کے لڑکے یا لڑکی سے پیار کروں گا جس کا اس طرح کا رنگ اور قد قامت وغیرہ ہو، نہیں بالکل بھی نہیں! دو بندوں کے درمیان اس طرح کی کوئی تیاری نہیں ہوتی، بغیر تیاری کے محبت بس ہو جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح نفرت کا معاملہ ہے جو اس کے الٹ ہوتا ہے۔ بعض بندوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہوتا، پھر بھی جب ان کا آمنا سامنا ہو جاتا ہے تو وہ لڑ پڑتے ہیں۔ جب ان سے ان کی بددلی کے بارے میں پوچھا جائے تو ان کا جواب بس یہی ہوتا ہے کہ مجھے بھی اور کوئی پتہ نہیں، ویسے ہی یہ بندہ مجھے برا لگتا ہے۔
اس طرح کا معاملہ جانوروں میں بھی چلا آ رہا ہے۔ بلی بیچاری نے کتے کا کیا بگاڑا ہے جو اس کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ اس طرح گیدڑ اور کتے کا معاملہ بھی ہے، ان کے درمیان کوئی ظاہری دشمنی نظر نہیں آتی ہے مگر پھر بھی کتا ان کا پیجھا کرتا ہے۔
انسان کے پیار اور محبت کرنے کا معاملہ بہت پیجیدہ ہے یعنی اس بارے ہر انسان کا اپنا ایک پیمانہ ہے۔ محبت شہوانیت سے لے کر الوہیت تک ہے۔ دنیا میں جتنے انسان ہیں تو اتنے ہی اذہان بھی ہیں، ہر بندے کا ذہن دوسرے انسان سے جدا اور الگ تھلگ ہے، ہم مختصر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کرہ ارض پر جتنے اذہان ہیں تو اتنی ہی تعریفیں آپ کو محبت کے بارے میں ملیں گی۔ اگر ایک بندہ حیوانیت کے درجے پر کھڑا ہے تو وہ کہے گا کہ محبت وہ ہے جو صرف جنسی عمل تک محدود ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ بندہ اب تک آدمیت کی پہلی سیڑھی پر کھڑا ہے جو صرف حیوانی حد تک سوچ سکتا ہے۔
دوسرا آدمی جو آدمیت سے پروموٹ ہو کر بشریت کے درجے پر کھڑا ہے تو وہ بولے گا کہ محبت ہمدردی اور صلہ رحمی کا نام ہے۔ بشریت سے بڑھ کر اگر ایک بندہ اوتار کے درجے پر کھڑا ہے تو وہ کہے گا کہ محبت نظارہ قدرت کا نام ہے۔ اوتار سے بڑھ کر اگر کوئی بندہ ولی اللہ کے درجے پر فائز ہے تو وہ بولے گا کہ خالق کی ذات میں فنا ہونا محبت ہے، جس کو عشق حقیقی بھی کہا جاتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ محبت بظاہر ایک چھوٹا سا جذبہ اپنے آپ میں کثیر معنی رکھتی ہے جس کا تعلق ایک انسان کی سوچ اور اپروچ تک محدود ہے اور ہر کسی کا محبت کے حوالے سے ادراک اور مفہوم ٹھیک اور درست ہے۔