جرائم

”افغانستان میں فنکاروں کے فن اور جانوں کو خطرہ لاحق ہے”

طیب محمدزئی

پشاور کی مقامی عدالت نے سفری دستاویزات نہ ہونے پر گرفتار چار افغان گلوکاروں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، دوسری جانب فنکاروں کی رہائی کے لیے سیاسی، سماجی حلقوں سمیت موسیقی کی دنیا سے وابستہ کئی افراد نے اتوار کے روز پشاور پریس کلب اور پختونخوا اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کیا۔

تھانہ تہکال پولیس کے تفتیشی افسر نے جب گرفتار افغان گلوکاروں ندیم شاہ، سعید اللہ، اجمل اور نوید اللہ کو عدالت میں پیش کیا تو اس دوران عدالت کو بتایاگیا کہ ملزمان کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھے جس کے بعد ملزمان کو گرفتار اور ان کے خلاف 14 فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ عدالت نے سماعت کے بعد چاروں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

اس سے اک روز قبل جب پولیس اہکاروں نے مذکورہ گلوکاروں کو حراست میں لیا تو افغان گلوکاروں کی گرفتاری کی خبر سوشل پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور گرفتار افغان گلوکاروں کی رہائی کے لیے مہم شروع ہوئی، جس کے بعد مختلف حلقوں نے گلوکاروں کی رہائی کے لیے احتجاج کی کال دے دی جس کے نتیجے میں پیر کے روز پشاور پریس کلب کے سامنے مظاہرہ ہوا۔

پشاور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے کی قیادت ہنری ٹولنہ کے صدر راشد خان، مفکورہ ریسرچ سینٹر کے حیات روغانے، ہنر کور کے امجد شہزاد اور سماجی کارکن و سٹوڈنٹس لیڈر امین اللہ خان کنڈی اور شاھکار محمد زئی کر رہے تھے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ان کے مطالبات کے حق میں نعرے درج تھے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے راشد خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موسیقی سے وابستہ لوگ دیگر افغان مہاجرین کی طرح افغانستان کے حالات کی وجہ سے پشاور آئے ہیں اور وہ بہت کسمپرسی کی زندگیاں گزار رہے ہیں اور 14 فارن ایکٹ کے تحت گرفتار گلوکاروں کو دوبارہ ملک بدر کیا گیا تو افغانستان میں ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گا لہذا حکومت پاکستان افغان گلوکاروں کے ساتھ خصوصی رعایت برتے اور نرمی کا مظاہرہ کرے کیونکہ ان افغان گلوکاروں نے اپنے فن کے ساتھ یہاں ہجرت کی اور ان لوگوں کا مقصد اپنے فن اور جانوں کو تحفظ دینا تھا۔

پشاور سٹی کے سپرانٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) محمد عتیق شاہ کا کہنا تھا کہ پشاور شہر کے اندر جو بھی افغانستان کا باشندہ بغیر کسی سفری دستاویزات پایا گیا تو اس کے خلاف 14 فارن ایکٹ کے تحت کاروائی کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات شہر کے امن و امان کے لیے کیے جاتے ہیں کیونکہ بغیر کسی دستاویزات رہائش پذیر افراد کا دہشت گردی میں استعمال ہونے کا خدشہ ہے اس لیے پولیس امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے خلاف آپریشنز کرتے ہیں۔

انہوں نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ رواں سال 900 سے زائد بغیر سفری دستاویزات رکھنے والے افغان باشندوں کے خلاف کاروائی کی گئی ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ میں وکالت کرنے والے وکیل اور افغان مہاجرین کے بین الاقوامی ادارے یو این ایچ سی کے سابق لیگل ایڈوائزر شاہد عمران گگیانی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ 14 فارن ایکٹ کی دفعہ بیرونی ممالک (خواہ وہ افغانستان کے ہوں یا دیگر ممالک کے) کے شہریوں کے خلاف لگتی ہے جو بغیر کسی سفری دستاویزات کے پاکستان میں مقیم ہوں، اگر بغیر سفری دستاویزات کے کوئی بھی بیرونی ملک کا شہری نقل و حرکت کرتا تو قانون بھی حرکت میں آ جاتا ہے اور مذکورہ شہری کے خلاف 14 فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرتا ہے اور بعد میں اگر مقدمہ کے دوران جرم ثابت ہو جائے تو مجرم کو تین سال قید یا ملک بدری (ڈی پورٹ) کی سزا ملتی ہے تاہم پاکستان حکومت اور خاص کر عدلیہ افغان مہاجرین کے ساتھ خصوصی رعایت کرتی ہے اور زیادہ تر افغان باشندوں کو قید کرنے کے بجائے ڈی پورٹ کرتے ہیں اور پاکستانی حکام ڈی پورٹ افغان مہاجرین کو افغانستان سے منسلک طورخم اور چمن سرحدات پر افغان حکومتی اہلکاروں کے حوالے کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مذکورہ فنکاروں کو بھی جرم ثابت ہونے پر قید یا پھر ملک بدری کا سامنا ہو سکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button