سیاستکالم

28 مئی: جب ہم کرہ ارض پر پہلی مسلم ایٹمی طاقت بن کر ابھرے

عبد المعید زبیر

وطن سے محبت اک فطری امر ہے۔ بلکہ وطن سے محبت پاکیزہ اور شدید ترین محبتوں میں سے ایک ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "فطرت انسانی کو وطن کی محبت سے گوندھا گیا ہے” یعنی حب الوطنی انسانی خمیر کے اندر رکھ دی گئی ہے۔ اور اگر وہ وطن ایسا ہو جو لا الہ الااللہ کے نام پر حاصل کیا گیا ہو، تو سوچیے اس محبت کی شدت کیسی ہو گی؟

وطن سے محبت کوئی بری بات نہیں بلکہ اسے تو ایمان کا حصہ بھی کہا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے بہت محبت تھی۔ مکہ مکرمہ سے جاتے وقت اسے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ "تو مجھے بہت محبوب ہے۔ اگر تیرے باشندے مجھے یہاں سے نکل جانے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا۔”

پاکستان جو صرف اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، جس کا مقصد ہی نفاذ اسلام تھا۔ جب ایسے ملک کی بات کی جائے، اس کی آزادی، خودمختاری اور بہادری کے قصے سنے جائیں تو ہر محب وطن شخص کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ محبت پہلے سے کئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔

پاکستان کے لیے دو دن بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک 14 اگست اور دوسرا 28 مئی کا۔ چودہ اگست وہ عظیم دن تھا، جب ہم آزاد مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے، دنیا سے اپنا وجود منوانے میں کامیاب ہوئے اور دوسرا اٹھائیس مئی 1998 کا مبارک دن، جب ہم کرہ ارض پر پہلی مسلم ایٹمی طاقت بن کر ابھرے۔ جب ہم نے اپنے دشمن کو وارننگ دی کہ آئندہ سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا، اب اینٹ کا پتھر سے ملے گا۔ گویا پہلے پاکستان بنایا اور پھر بچایا۔
پاکستان بننے کے بعد بھی بھارت، پاکستان کی آزادی تسلیم کرنے کی بجائے موقع بموقع اس کی آزادی پر وار کرتا رہا۔ حتی کہ پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ پہلے دن سے ہی بھارت کی یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو مستحکم نہ ہونے دے، کبھی 1965ء کی جنگ اور کبھی 1971ء کی۔ مگر جب اس نے ایٹمی ایٹمی دھماکے کیے تو گویا اس نے خطے کی سلامتی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ جو بھارت پہلے ہی ہر وقت اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سازشیں کرتا آ رہا تھا، اب اس کے دھماکوں نے مزید خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے لیے اپنے محدود وسائل میں ایسا کرنا بظاہر ناممکن لگ رہا تھا مگر جذبہ حب الوطنی انسان سے بہت کام کر جاتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید نے مشکل وقت میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے فیصلہ کیا جو 1998ء میں نواز شریف کے دور حکومت میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ یہ فیصلہ بہت زیادہ دباؤ اور مشکل میں ہوا۔ 1998ء میں بھارت کے ایٹمی تجربات کے بعد جہاں پاکستان پر اس کا جواب دینا ضروری ہو گیا تھا، وہیں عالمی طاقتوں کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بہت بڑھ رہا تھا۔ ایک طرف بھارت، اسرائیل کی مدد سے پاکستان کے ایٹمی مراکز پر حملوں کی دھمکیاں دے رہا تھا تو دوسری جانب مغربی ممالک پابندیوں کی دھمکیاں دے کر ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے کروڑوں ڈالر کی امداد کے عوض ان دھماکوں سے روکنے کی کوشش کی کہ یہ دھماکے نہ کیے جائیں۔ لیکن ان سب دھمکیوں اور مشوروں کے باوجود ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے لوگوں کے اخلاص اور محنت کی بدولت حکومت نے دھماکے کرنے کی اجازت دے دی۔ بھارت کے تین دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے صرف تین ہفتوں کے فرق سے چاغی کے مقام پر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔

بظاہر تو یوں لگا کہ ان دھماکوں کی وجہ سے صرف چاغی کے پہاڑوں پر لرزہ طاری ہوا، لیکن حقیقت میں پورا عالم کفر اس وقت نعرہ تکبیر کی گونج سے لرز اٹھا تھا۔ ان دھماکوں سے جہاں پاکستان نے عالم اسلام کا سر فخر سے بلند کیا، وہیں پر دشمنان پاکستان کو بھی خبردار کر دیا کہ اب میلی آنکھ سے دیکھنے والے کو آنکھوں سے ہی محروم کر دیا جائے گا۔
کچھ نئی چیزوں کی ایجاد نے جہاں دنیائے انسانیت میں انقلاب برپا کیا، انہیں فائدہ پہنچایا، وہیں کچھ چیزوں کی ایجاد نے اس کے وجود پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ ان میں سے ایک چیز یہی ایٹمی دھماکے ہیں۔ اگرچہ اب تک صرف دو دفعہ ہی انہیں استعمال کیا گیا، (جب دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے) مگر اس کے خطرات ہمیشہ سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل روسی صدر کے ایٹمی ہتھیاروں کو ہائی الرٹ کرنے کے حکم نے دنا کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ 2022ء کے آغاز تک دنیا کے نو ایٹمی ممالک کے پاس تقریباً بارہ ہزار سات سو جوہری ہتھیار موجود ہیں جو اس دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں۔

مگر اب یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ آہستہ آہستہ دنیا ان سے پاک ہو جائے گی۔ کیونکہ اب دنیا کا رجحان ایٹمی جنگوں کے بجائے تہذیبوں کی جنگ کی طرف ہو گیا ہے۔ جہاں بنا کوئی خون بہائے دنیا پر قبضے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اب وہ لوگ شہروں کو تباہ نہیں کرتے بلکہ تہذیب کو تباہ کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ جیسا کہ پاکستان میں آج کل ہو رہا ہے۔ کیونکہ جب سیاسی و معاشی عدم استحکام ہو گا، تہذیب و اخلاص ختم ہو جائے گا تو کسی بھی ملک پر قبضہ کرنا مشکل نہیں ہو گا۔

آج پاکستان سیاسی طور پر مکمل عدم استحکام کا شکار ہے۔ کوئی حکومت مکمل اختیارات سے نہیں آتی۔ انہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا جاتا ہے۔ بظاہر نظر آنے والا حاکم دراصل ایک ربورٹ مشین ہوتی ہے، جسے کوئی دوسرا چلا رہا ہوتا ہے۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت کسی کو حکمرانی دی جاتی ہے۔ کام پورا ہو جائے تو اتار کے پھینک دیا جاتا ہے۔ معاشی طور پر قرضوں کے بوجھ تلے اتنا دب چکے ہیں کہ اب دیوالیہ ہونے کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔ ہر چیز اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ ڈبل سے بھی زیادہ قیمت پر ملنے لگی ہے۔ کبھی اس قیمت پر بھی میسر نہیں ہوتی۔ موٹر وے، ہوائی اڈے، ملیں اور نہ جانے کیا کچھ گروی رکھا جا چکا ہے۔ بلکہ اب تو اسٹیٹ بنک ہی آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا چکا ہے۔

دوسری طرف اخلاقیات کا بالکل جنازہ نکل چکا ہے۔ کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ ہر کوئی عیاشیوں اور بدکاریوں میں مبتلا ہے۔ معاشی طور پر دیوالیہ ابھی نہیں ہوئے مگر اخلاقی طور پر مکمل دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ اپنی تہذیب بھلا چکے ہیں۔ اپنے رب کے احکامات کو یکسر نظر انداز کر چکے ہیں۔ اپنے آپ کی پہچان ختم کر چکے ہیں۔

پاکستان کی فوج اور ایجنسیاں جو دنیا کی عظیم ترین افواج اور ایجنسیوں میں شمار ہوتی ہیں، آج بغاوت کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ ایسے مقدس اداروں کو متنازع بنا دیا جا چکا ہے۔ آپس کا اتحاد ناپید ہو چکا ہے۔ جو توانائیاں دشمن کے خلاف صرف ہونی تھیں، وہ آج حکومتیں بنانے، گرانے اور خود کو کمزور کرنے میں صرف ہو رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں۔

ذرا سوچیے! جب دفاعی اداروں کی یہ حالت ہو گی تو ایٹم بم کی کیا حیثیت رہے گی؟ اس کا دبدبہ کس کام آئے گا؟ کون ہے جو اداروں کو متنازع بنا رہا ہے؟ کون ہے جو اداروں میں مداخلت کر رہا ہے؟ کون ہیں جو آئے دن آئین پاکستان کو روند رہے ہیں؟ کون ہیں جن پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا؟ کون ہیں جنہوں نے عدالتوں کو اپنی باندی بنا لیا ہے؟ کون ہیں جو اس ملک کو مستحکم نہیں ہونے دے رہے؟ اپنے دشمنوں کو تلاش کیجیے، ان کا تعاقب کیجیے اور ان کے شر سے اپنے وطن کو محفوظ کیجئے۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر دولت سے مالا مال کیا ہے۔ یہاں حب الوطنی سے سرشار ایسے لوگ موجود ہیں، جو اس وطن کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ یہاں مخلص اور ایماندار سیاستدان موجود ہیں، ضرورت صرف ان میں فرق کرنے کی ہے۔ یہاں معاشی طور پاکستان کو مضبوط کرنے والے ادارے، تاجر اور معاشی ٹیمیں موجود ہیں۔ یہاں ایسے ایسے نوجوان موجود ہیں جو دنیا کو دن میں تارے دکھانے کی ہمت اور جرات رکھتے ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے اب ہم اپنے آپ کو پہچان لیں۔ شیر کا بچہ بھی بھیڑ بکریوں میں رہ کر اپنی پہچان کھو جاتا ہے۔ مگر جب اسے اپنی پہچان ہو جائے تو ہی اسے اپنی اصل طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔

آئیے! ہم بحیثیت قوم مل کر عہد کرتے ہیں کہ اس ملک کو سیاسی و معاشی اور اخلاقی ترقی دیں گے۔ اسے ہر میدان میں مضبوط کریں گے۔ دشمن کی ہر چال کے سامنے ڈھال بنیں گے۔ آپسی اختلافات کو بھول کر ایک قالب میں ڈھل جائیں گے۔ اس ملک کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

Moed
عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button