لانگ مارچ: میڈیا ورکرز پر تشدد معمول بنتا جا رہا ہے
شاہد خان
ملک بھر میں سیاسی ماحول کافی گرم ہے، ہر جگہ جلسے، جلسوں، مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ آج پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ بھی ہے۔
حال ہی میں تحریک انصاف، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام ف کے بڑے بڑے جلسے ہوئے۔ دیکھا جائے تو اس وقت ملک میں غیریقینی صورتحال ہے، الیکشن کے لئے بھی تمام پارٹیاں تیاری کر رہی ہیں۔ ایسے میں مین سٹریم میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کی ڈیوٹی کافی سخت ہو گئی ہے۔
ہر جلسے، جلوس، مظاہرے اور مارچ کی کوریج کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ شدید گرمی اور دھوپ میں بھوک پیاس برداشت کرنے کے باوجود میڈیا ورکرز پر تشدد معمول بنتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام ف کے پشاور جلسے میں میڈیا ورکرز پر نہ صرف تشدد کیا گیا بلکہ ایک فوٹو جرنلسٹ کا کیمرہ بھی توڑ دیا گیا۔
اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے رمضان المبارک میں پشاور میں اس کے بعد مردان، صوابی اور کوہاٹ میں ہونے والے حالیہ جلسوں میں بھی میڈیا ورکرز کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پشاور کے جلسے میں پی ٹی آئی ورکرز نے نہ صرف میڈیا کے لئے مختص کنٹینر پر قبضہ کیا بلکہ ڈی ایس این جیز پر چڑھ گئے اور اترنے سے انکار کر دیا۔ اس جلسے میں ایک سینئر فوٹو جرنلسٹ کا لیپ ٹاپ گم ہو گیا تھا، ایک فوٹو گرافر کے کیمرے کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ ایک ویڈیو جرنلسٹ کی موٹرسائیکل کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا۔
سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے پشاور، مردان، صوابی اور کوہاٹ میں میڈیا کے لئے مختص کنٹینر پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ جن کارکنوں کو جگہ نہیں ملی تو انہوں نے صحافیوں پر پتھراؤ بھی کیا۔ پتھراؤ سے کئی صحافی زخمی ہوئے جبکہ ڈی ایس این جیز کی چھت پر چڑھنے سے لائیو کوریج بھی متاثر ہوئی۔
مردان جلسے میں سٹیج کافی اونچی جگہ پر بنایا گیا تھا اور ٹائیگر فورس بھی موجود تھی لیکن کارکن ان کنٹینرز پر چڑھ کر میڈیا کے لئے مختص جگہ پر پہنچ گئے، صحافیوں اور رضاکاروں کے ساتھ تکرار بھی کی جبکہ جگہ کم ہونے پر صحافیوں کو لائیو کوریج کرنے میں شدید مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔
اس تمام صورتحال میں صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سمیت دیگر وزراء تحریک انصاف کے صوبائی عہدیداروں نے اعتراف کیا کہ اتنی تعداد میں کارکنوں کے سامنے تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس بے بس رہی ہے، جلسوں میں اپنے کارکنوں کے لئے شرپسند عناصر اور مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکن آ کر بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے جلسے کو ناکام بنانے کے لئے یہ عناصر سب سے پہلے صحافیوں کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ صحیح طرح کوریج نہ ہو اور صحافی بھی ناراض ہو جائیں۔
چند روز پہلے جے یو آئی کے جلسے میں ہونے والے واقعات سے متعلق پارٹی کے صوبائی ترجمان جلیل جان نے صحافیوں سے معذرت کی لیکن انہوں نے اپنے ورکرز اور ڈیوٹی پر مامور اپنے انصار الاسلام کے کارکنوں کا دبے الفاظ میں دفاع بھی کیا۔
اس حوالے سے جلسوں کی کوریج کرنے والے مختلف ٹی وی چینلز کے کیمرہ مینوں نے بتایا کہ ایک طرف ان پر اپنے ہیڈ آفس کی جانب سے پریشر ہوتا ہے کہ جلسے کی لائیو کوریج ضروری ہے، کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، کوریج کے دوران بار بار ہیڈ آفس سے فونز آتے ہیں لیکن دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے ورکرز روکنے کے باوجود صحافیوں کے لئے مختص کنٹینر پر قابض ہو جاتے ہیں، پارٹی کارکنوں کی وجہ سے کنٹینر پر کیمروں کےلئے نہ صرف جگہ کم پڑ جاتی ہے نلکہ کارکن تکرار اور لڑائی بھی کرتے ہیں اور ایک جگہ پر ٹکتے بھی نہیں جس سے کنٹینر مسلسل ہلتا ہے اور لائیو کوریج میں بار بار خلل پڑتا ہے اوپر سے بعض سیاسی جماعتوں کے کارکن نیچے سے پتھراؤ بھی شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران پشاور کے متعدد صحافی خصوصاً ویڈیو اور فوٹو جرنلسٹس زخمی بھی ہوئے اور ان کے کیمروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ بعض میڈیا اداروں کے کارکنوں کو ان کے ادارے کی وجہ سے بھی سیاسی جماعتوں کے کارکن دھمکیاں دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان صحافیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔
پشاور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری شہزادہ فہد بھی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا رویہ دیکھ کر صحافیوں کے بارے میں فکرمند ہیں، کہتے ہیں متعلقہ سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے کر کے شکایت کی گئی ہے لیکن سیاسی جماعتیں بھی اپنے کارکنوں کے سامنے بے بس ہیں۔
جنرل سیکرٹری پشاور پریس کلب کا خیال ہے کہ کلب اور یونین کی سطح پر آواز تو اٹھائی جا رہی ہے لیکن میڈیا ورکرز کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے میڈیا کے اداروں بھی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر میڈیا اداروں کے سربراہان سیاسی جماعتوں کے ساتھ صحافیوں کے تحفظ پر بات کریں، مالکان اور اداروں کے سربراہان جلسے، جلوس، مظاہروں یا مارچ وغیرہ کی کوریج کو میڈیا ورکرز کے تحفظ سے مشروط کریں تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔