جدید نرسنگ کی بانی فلورنس، پاکستان میں اس شعبہ کی بنیاد کس نے رکھی ہے؟
ناہید جہانگیر
چارسدہ سے تعلق رکھنے والی زبیدہ خانم نے 22 سال پہلے نرس کے طور پر اپنے کرئیر کا آغاز کیا تھا تاہم گھر میں صرف ان کے والد نے ہی ان کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ ان دنوں تو لوگ ذہنی طور پر سکول میں صرف استانی کی نوکری کو قبول کرتے تھے اور نرس کے پیشے کو کچھ خاص اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ہر کامیاب عورت کے پیچھے بھی ایک مرد کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ عورت تب ہی معاشرے میں اپنا اعلیٰ مقام بنا سکتی ہے جب گھر کا کوئی بھی مرد اس کا ساتھ دے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بطور ہیڈ نرس کام کرنے والی زبیدہ خانم کہتی ہیں کہ کوئی پیشہ برا نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کی سوچ اچھی ہونی چاہئے، ”دلی خوشی ملتی ہے جب کسی بھی مریض کی دیکھ بال کرتی ہوں اور اللہ کا شکر گزار ادا کرتی ہوں کہ اللہ نے مریضوں کی خدمت کا موقع دیا ہے۔”
نرسوں کا عالمی دن ہر سال 12 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ انگیل کے یوم پیدائش کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔
نرسنگ کی اہمیت اُجاگر کرنے اور ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر دنیا بھر میں ہر سال 12 مئی کو نرسوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ آج کے دن نرسنگ سے منسلک افراد کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس شعبے سے وابستہ خواتین کو درپیش مسائل پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔
نرسوں کا عالمی دن منانے کا آغاز 1953ء میں ہوا جب امریکا کے شعبہ صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود سے منسلک ڈوروتھی سدرلینڈ نامی خاتون نے امریکی صدر سے نرسوں کے عالمی دن کا اعلان کرنے کو کہا تھا۔ تاہم اس وقت پیش کردہ تجویز منظور نہیں کی گئی لیکن تین سال بعد 1956ء میں نرسوں کی بین الاقوامی کونسل نے 12 مئی کو ’نرسوں کا عالمی دن‘ منایا۔
12 مئی جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ انگیل کا یوم پیدائش بھی ہے۔ نرسوں کے عالمی دن کا مقصد فلورنس نائٹ انگیل اور دنیا بھر کی نرسوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔
پاکستان میں شعبہ نرسنگ کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ 1949ء میں سنٹرل نرسنگ ایسوسی ایشن اور 1951ء میں نرسز ایسو سی ایشن کا قیام عمل میں آیا اور اس دن کے بعد پاکستان میں بھی باقاعدگی سے نرسوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
ہیڈ نرس زبیدہ خانم کے مطابق زیادہ تر لوگ نرسوں کے رویے کی شکایت کرتے ہیں لیکن کچھ بھی ایسا نہیں ہے کیونکہ ان کی نوکری سیریس نیچر کی ہے، ان کا کام مریض کی خدمت و علاج کرنا ہے نا کہ گپ شپ یا ان کے ہر سوال کا جواب دینا، پیشے کے اعتبار سے ان کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ صرف اپنی ذمہ داری خوش اسلوبی سے سرانجام دیں نا کہ غیرضروری باتوں میں اپنا اور مریض کا وقت ضائع کریں، ”دوسری اہم بات یہ ہے روزانہ کی بنیاد پر مریضوں کی نسبت نرسنگ سٹاف کی کافی کمی ہے تو بعض اوقات کسی بھی ایمرجسنی میں تھوڑا مشکل ہوتا ہے حالات کو کنٹرول کرنا اس لئے عوام کو صبر کے ساتھ سٹاف سے تعاون بھی کرنا چاہئے۔”
دوسری جانب نرس شبینہ بھی اپنے پیشے سے کافی خوش ہیں جو گزشتہ 13 سالوں سے اس پیشے سے منسلک ہیں اور آج کے دن تمام نرسنگ سٹاف کو ان کی خدمات کے حوالے سے خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ نا صرف وہ انسانی خدمت کرتی ہیں بلکہ کورونا جیسے وباء کے دنوں میں بھی اپنی اور اپنے خاندان کی پرواہ کیے بغیر ڈیوٹی سرانجام دیتی رہی ہیں، ”شروع کے دنوں میں جب عام لوگ کورونا سے متاثر اپنے رشتہ دار مریضوں سے دور بھاگتے تھے جبکہ نرسیں مشکل کی اس گھڑی میں بھی کورونا کے مریضوں کی دل وجان سے خدمت کرتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ شعبہ صحت میں ڈاکٹرز کے علاوہ سپورٹنگ اسٹاف، جن میں نرسیں، وارڈ بوائز اور دیگر شامل ہوتے ہیں، کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مریضوں کی حفاظت، دیکھ بھال اور تیمارداری میں ایک نرس اہم کردار کرتی ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ شعبہ صحت میں نرس ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، مختلف ادوار میں مختلف وباؤں کے علاوہ جنگ میں بھی نرسیں پیش پیش رہی ہیں۔