سیاست

”وزیر اعظم خود یہ آٹا کب سستا کریں گے؟”

محمد فہیم

ہفتے کے روز وزیر اعظم شہباز شریف نے خیبر پختونخوا کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے شانگلہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا اور کئی اعلانات بھی کئے۔ جوش خطابت میں وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ اعلان کر دیا کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کیلئے سبسڈی دے گا اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو بھی چاہئے کہ اپنے عوام کو سستے داموں آٹے کی فراہمی کیلئے سبسڈی دے لیکن اگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ایسا نہیں کر سکتے تو بطور وزیر اعظم میں خود یہ آٹا سستا کر دوں گا۔ تاہم اس اعلان پر عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے جو اب تک نہیں ہو سکا ہے۔

خیبر پختونخوا میں آٹے کا بحران مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور اس حوالے سے صوبے کی سب سے بڑی آٹا مارکیٹ یعنی اشرف روڈ کی حالت سب کے سامنے ہے۔ آٹا مارکیٹ اشرف روڈ کے دکانداروں کے مطابق 18 اپریل سے اٹک میں ایک چیک پوسٹ قائم کر دی گئی ہے جو آٹے اور گندم کی ترسیل روکے ہوئے ہے تاہم اس کے باوجود رشوت وصول کرتے ہوئے ٹرک کو آنے دیا جاتا ہے، ماضی میں ایک ٹرک کی ترسیل پر 15 ہزار روپے خرچ ہوتے تھے تاہم اب رشوت اور راستہ تبدیل کرنے کے باعث ایک ٹرک پر 65 ہزار سے زائد کا خرچہ آ رہا ہے جس کی وجہ سے 20 کلو بیگ کی قیمت 120 سے 150 روپے تک بڑھ گئی ہے، اسی طرح عید کے باعث مارکیٹ میں مندی تھی تاہم اب دوبارہ مارکیٹ کھلنے سے طلب اور رسد کا فرق سامنے آ جائے گا جو آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔

حکومت خیبر پختونخوا اور وفاق کی آٹا بحران پر سیاست

خیبر پختونخوا حکومت اس آٹے کے بحران کو زیادہ شدید قرار نہیں دے رہی اور پرامید ہے کہ جلد ہی اسے قابو کر لیا جائے گا، صوبائی وزیر خوراک عاطف خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم اپنی شوبازی کرنے کی بجائے خیبر پختونخوا کے عوام کیلئے آٹا سستا کریں اور پنجاب سے آٹے کی ترسیل پر عائد پابندی اٹھائی جائے، پنجاب سے آٹا خیبر پختونخوا کو مفت نہیں ملتا بلکہ اس کی ادائیگی کی جاتی ہے جو ڈیلرز کرتے ہیں ایسے میں ڈیلرز کو آٹا فراہم نہ کرنا یا پھر انہیں حیلے بہانوں سے تنگ کرنا کسی کے حق میں نہیں ہے۔

عاطف خان کے مطابق خیبر پختونخوا کے ڈیلرز مارکیٹ سے آٹا خریدتے ہیں اور پشاور کی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں پنجاب حکومت کی جانب سے اس پر پابندی سمجھ سے بالا تر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے میں جلد وافر مقدار میں گندم فراہم کر دی جائے گی جس کیلئے پاسکو کے ساتھ بات چیت جاری ہے جبکہ نئی فصل کی کاشت بھی شروع ہے امید ہے جلد صوبے میں ریٹ قابو میں آ جائے گا۔

نئی گندم کی قیمت مہنگی، آٹا بھی مہنگا ہو گا

خیبر پختونخوا میں آٹے کی کل ضرورت 48 لاکھ میٹرک ٹن سالانہ ہے جبکہ خیبر پختونخوا اپنے وسائل سے 12 لاکھ میٹرک ٹن تک گندم پیدا کرتا ہے تاہم اس میں بیشتر گندم مارکیٹ میں نہیں آتی اور اسے مقامی سطح پر پن چکیوں میں ہی آٹے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، صوبے کو اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے 36 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم پنجاب اور بیرون ممالک سے درآمد کرنی پڑتی ہے ایسے میں پنجاب کی جانب سے گندم کی ترسیل پر عائد پابندی نے تمام نظام بگاڑ دیا ہے، اسی طرح گندم کی ترسیل پر عائد پابندی کی وجہ سے گندم کی 100 کلو بوری کی قیمت میں 400 روپے تک اضافہ ہو گیا ہے اور وہ اس وقت 6 ہزار 200 روپے میں میسر ہے، اسی طرح اس وقت پنجاب میں حکومت گندم کی خریداری میں ماضی کی نسبت 10 روپے فی کلو مہنگی کر رہی ہے جس سے کاشتکار کو فائدہ تو ہو رہا ہے تاہم 100 کلو بیگ کی خریداری کاشتکار سے ساڑھے 5 ہزارروپے میں کر رہی ہے جس کی سٹوریج اور ترسیل کے اخراجات کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور گندم کی 100 کلو بوری کی قیمت 7 ہزار روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے گندم مہنگی ہونے سے آٹے کی قیمت بھی مزید بڑھ جائے گی۔

حکومتیں تبدیل ہوئیں لیکن آٹے اور گندم کا مسئلہ حل نہ ہو سکا

فلور ملز ایسوسی ایشن اس تمام معاملات میں پس کر رہ گئی ہے۔ خیبر پختونخوا فلور ملز ایسوسی ایشن کے گروپ لیڈر نعیم بٹ کے مطابق گندم اور آٹے کی ترسیل کا مسئلہ نیا نہیں ہے، پنجاب، خیبر پختونخوا اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہونے کے باوجود گندم کی ترسیل پر کئی بار پابندی لگی اور اب مختلف حکومتیں آنے سے بھی معاملات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

نعیم بٹ کے مطابق گندم اور آٹے کے ٹرک پنجاب سے آنے پر پابندی ہے لیکن اگر وہاں افسران کی مٹھی گرم کر دی جائے تو ٹرک کو اس طرف آنے کی اجازت ہے، پنجاب سے بلیک میں ایک ٹرک کی قیمت 30 ہزار روپے سے زائد وصول کی جا رہی ہے جو سرکاری خزانے کی بجائے عملہ کی جیب میں جاتے ہیں۔

نعیم بٹ کہتے ہیں کہ حکومت الزام عائد کر رہی ہے کہ آٹے کی سمگلنگ افغانستان ہو رہی ہے تاہم حقیقت اس سے مختلف ہے، دو سال قبل افغانستان کو آٹے کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی گئی تھی تب سے اب تک ایک بیگ آٹا بھی نہیں گیا ہے اور اگر وفاق کو ایسا کوئی شک ہے تو سرحد پر موجود اپنے اداروں سے پوچھ گچھ کر لے کیونکہ سرحد کا کنٹرول صوبے کے پاس نہیں وفاق کے پاس ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button