”عید پرانے کپڑوں میں بھی گزر جاتی ہے بھوکے پیٹ گزارنا مشکل ہے”
سلمیٰ جہانگیر
ہر سال کی طرح یکم مئی، یومِ مزدور، امسال بھی آ کر گزر گیا۔ لیکن سالِ گزشتہ کو مزدور کی جو حالت تھی، ایک سال گزرنے پر شاید، بلکہ یقیناً وہ بدتر ہو کر رہ گئی ہے۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ ہر سال پوری دنیا اس دن شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کو یاد کر کے جانے کون سا تیر مار لیتی ہے۔
کہنے کو تو مزدور کسی شمار قطار میں نہیں آتا نہ ہی اسے کبھی خاطر میں لایا جاتا ہے، درحقیقت ایسا کرنا، سوچنا غلط ہے۔ کیونکہ میں سجھتی ہوں مزدور ہمارے معاشرے کا سب سے قابل اور امیر طبقہ ہے، ان کے بغیر باقی طبقات کچھ بھی نہیں۔ ذرا سوچیں مزدور اگر کام کرنے سے انکار کر دے تو کیا کبھی کوئی معاشرہ ترقی کر پائے گا، بہت سے کام ان کے تعاون کے بغیر ادھورے ہیں۔
اس سال مگر یہ عجیب اتفاق ہوا ہے کہ کل یوم مزدور تھا، جو رمضان کا حصہ رہا، اور آج پاکستان میں صرف خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں جبکہ باقی پوری دنیا میں عیدالفطر کا پہلا دن ہے۔ ویسے بھی امیر طبقہ ہر سال یوم مزدور کی تعطیل گھر والوں کے ساتھ مناتا ہے، جبکہ اب کے برس تو عید بھی ہو گئی، یعنی تعطیل نہیں تعطیلات، لیکن مزدور عید سے ایک دن پہلے بھی مزدوری کی خاطر گھر سے نکلا اور اس انتظار میں رہا کہ کہیں پر کوئی کام مل جائے تاکہ عید نا سہی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ تو پال سکے۔
المیہ یہ ہے کہ ہر سال یہ دن جن کے لئے منایا جاتا ہے، ان کو علم ہی نہیں ہوتا البتہ جن لوگوں کا ان سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں وہ پورا دن آرام کر کے اس دن سے لطف اٹھاتے ہیں یا پھرکوئی کوئی کہیں کسی سیمنار میں یا فائیو سٹار ہوٹلوں میں منعقدہ کسی اور تقریب میں بھرے پیٹ مزدور کے تلخ اوقات پر اپنا فلسفہ جھاڑ رہے ہوتے ہیں۔
آج عید ہے۔ ہم سب خوش ہو کر چھٹیوں کا سوچ رہے ہیں۔ دوسری طرف مئی کی اس تیز دھوپ میں کچھ لوگ کہیں دیہاڑی کر رہے ہوں گے یا ریڑھی پر برف، سبزیاں فروٹ وغیرہ بیچ رہے ہوں گے۔ اور شاید کہ کہیں کوئی مزدوری کے انتظار میں کسی چوک میں بیٹھا اپنے گھر بار، اہل و عیال کا سوچ سوچ کر اپنا حال رو رہا ہو گا۔
حالانکہ کل ہی تو مختلف اداروں نے، این جی اوز اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے مزدوروں کے حقوق کی خاطر نعرے بازی کی ہے اور تصوریں بنا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن آج کہیں کوئی مزدور اکیلا مزدوری کے انتظار میں بیٹھا ہے اور اس کے آس پاس دور دور تک کوئی نہیں ہے۔
اصل میں ان کو یہ نہیں معلوم کہ ان نعرہ بازیوں سے بہتر کسی مزدور کی مالی مدد کرنا ہے تاکہ اس کے بچے بھی دوسروں کی طرح عید کی خوشیوں کو محسوس کر سکیں۔ معاشرے کا یہ خاص طبقہ ایک دو گھنٹوں تک نعرہ بازی کرنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ انہوں نے کشمیر فتح کر کے مزدوروں کو دان کر دیا ہے، سو اپنی راہ لے کر چلے جاتے ہیں۔ کل بھی یہی کچھ ہوا ہے، نہیں ہوا کیا؟
مقامِ حیرت تو یہ بھی ہے کہ عید کے دن مگر یہ بدنصیب مگر پھر بھی اللہ کا شکر ہی ادا کرتے ہیں، اور اس کی ذات سے یہ سوچ کر مایوس نہیں ہوتے کہ اللہ نے ان کے حق میں بہتر فیصلہ ہی کیا ہو گا۔
ویسے یہ بھی یاد رہے کہ امیروں کی دولت میں غریبوں کا حصہ بھی ہوتا ہے اور ان سے ان کی بابت پوچھا بھی جائے گا۔
ایک مزدور سے عید کا پوچھا تو کچھ یوں گویا ہوئے، ”عید تو پرانے کپڑے پہن کر بھی گزر جاتی ہے لیکن خالی پیٹ گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے، عید کی خوشی تو ان لوگوں کی ہے جن کے گھر راشن سے بھرے ہوتے ہیں، مزدور جبکہ صبح نکلتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ کل کے دن کا کام ہو جائے تو شکر ہے، کہ مزدور کی اصل عید تو ہر اس دن کو ہوتی ہے جب اس کا اور اس کے بچوں کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔”