انصار یوسفزئی
ملک کی تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد سے نکال باہر کئے جانے والے سابق وزیر اعظم عمران خان آج کل بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں: پہلے پشاور، پھر کراچی اور اس کے بعد لاہور میں تاریخ ساز جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ ان جلسوں سے پہلے پاکستان سمیت یورپ اور خلیج میں ان سے اظہار ہمدردی کرنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
رمضان المبارک میں بڑے بڑے اور تاریخ ساز جلسے کرنے کے بعد اب عمران خان نے عید کے بعد اپنے کارکنوں کو اسلام آباد آنے کی کال دے رکھی ہے۔ عید کے بعد اسلام آباد میں کیا کچھ ہو گا؟ یہ سوال تو اپنی جگہ موجود رہے گا لیکن آج کل ملک بھر میں تین سوالوں کی بڑی بازگشت ہو رہی ہے۔ پہلا، کیا عمران خان دوبارہ کبھی پاکستان کے وزیر اعظم بنیں گے؟ دوسرا، کیا عمران خان 2023 کے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے واپس آئیں گے؟ تیسرا، کیا اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود عمران خان کو اقتدار ملے گا؟
پہلے سوال کا جواب بڑا آسان اور سیدھا سادہ سا ہے لیکن ان لوگوں کیلئے جو پاکستان کی سیاست کو واقعی میں سمجھتے ہیں اور تاریخ سے شغف رکھتے ہیں۔ جو لوگ پاکستان کی سیاست کو سمجھتے ہیں اور تاریخ کا ادراک بھی رکھتے ہیں ان کے نزدیک عمران خان دوبارہ کسی بھی وقت پاکستان کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں لیکن کیوں اور کیسے؟ ہمیں سمجھنا ہو گا پاکستان کی سیاست دوسرے معنوں میں مفادات کی جنگ ہے جس کو عام اصطلاح میں پاور پولیٹکس کہا جاتا ہے۔ اور پاور پولیٹکس کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں آج کے منظور نظر کل نظروں سے گر جاتے ہیں۔
2018 میں عمران خان صاحب منظور نظر تھے اقتدار میں آ گئے، آج نظروں سے گر گئے ہیں کرسی سے بھی گر گئے۔ کل کو اگر دوبارہ ان کی ضرورت ہو گی تو منظور نظر بن کر دوبارہ طاقت کی راہداریوں میں ان کو شامل کیا جائے گا لیکن فی الحال ان کی ضرورت نہیں تھی یا وہ ضرورت پوری نہیں کر پا رہے تھے لہٰذا ان کو نکال باہر کیا گیا تو یہ سوال کہ عمران خان دوبارہ وزیر اعظم پاکستان بنیں گے، تو جی ہاں بالکل کسی بھی وقت کسی بھی سمجھوتے پر!
دوسرے سوال کا جواب دینا تھوڑا مشکل ہو گا کہ کیا عمران خان صاحب 2023 کے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے واپس آئیں گے؟ اول، اٹھارویں ترمیم میں صوبائی خودمختاری کے بعد وفاق میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ دوئم، یہ کہ صرف اس بنیاد پر کہ آپ امریکہ مخالف ہیں اور آپ کو اس وجہ سے دو تہائی اکثریت ملے گی یہ آپ کی بھول ہو گی۔ دو تہائی اکثریت کیلئے آپ کو مضبوط بیانیے کے ساتھ ساتھ آپ کے پاس عوام کو دکھانے کیلئے اپنی کچھ کارکردگی بھی ہونی چاہئے جو کہ اس وقت عمران خان کے پاس نہیں ہے۔ محض اس بات پر کہ امریکہ نے میرے خلاف سازش کی (جو کہ ملکی اداروں نے رد کی ہوئی ہے) دو تہائی اکثریت ملنا انتہائی مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔ سوئم، یہ کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ کوئی بندہ دو تہائی اکثریت سے آ کر پھر ہمیں ہی دیوار سے لگانے کی کوشش کرے اور ماحول خراب ہو جائے جس طرح 1997 میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت سے صورت حال خراب ہوئی تھی۔
سینئر صحافی رؤف کلاسرا صاحب اپنی کتاب "ایک سیاست کئی کہانیاں” میں لکھتے ہیں کہ چودھری نثار علی خان نے انھیں بتایا کہ 1997 میں دو تہائی اکثریت کے بعد نواز شریف کا رویہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت بدل گیا تھا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لینا اس بات کی ایک کڑی تھی۔ جنرل جہانگیر کرامت کی غلطی شائد اس سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی کہ انہوں نے لاہور کے نیول وار کالج میں اپنے خطاب کے دوران نواز شریف کی حکومت کو صرف نیشنل سیکورٹی کونسل بنانے کا آئیڈیا دیا تھا۔ جب یہی کچھ نواز شریف اس کے بعد کے آرمی چیف پرویز مشرف سے کرنا چاہتے تھے تو حالت ایسے بدل گئے کہ پھر 9 سے 10 سال تک ملک مارشل لا کی لپیٹ میں رہا لہٰذا عوام کی طاقت اپنی جگہ لیکن ہم اسٹیبلشمنٹ کے رول کو سیاست میں نظر انداز نہیں کر سکتے اور اسٹیبلشمنٹ کے اس اہم رول کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کسی کو دوبارہ دو تہائی اکثریت دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ چوتھا، عمران خان کی دو تہائی اکثریت کا دارومدار الیکشن کی ٹائمنگ پر بھی ہو گا، اگر الیکشن 2023 میں اپنے وقت پر ہوں گے تو تب تک شہباز شریف اینڈ کمپنی کے پاس تھوڑا بہت وقت ہو گا جس میں تھوڑی بہت پرفارمنس اگر شو کرتے ہیں تو عمران خان کے امریکہ مخالفت بیانیے کو نقصان ہو سکتا ہے جس سے پھر دو تہائی اکثریت تو کیا شائد سادہ اکثریت بھی عمران خان کیلئے مشکل ہو گی لیکن اگر عام انتخابات آنے والے تین چار مہینے میں ممکن ہو گئے جس کیلئے عمران خان عید کے بعد اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد کی طرف آئیں گے تاکہ شہباز شریف اینڈ کمپنی کی حکومت پر ہر ممکنہ دباؤ ڈال کر ان کو انتخابات کیلئے مجبور کیا جا سکے، اگر ایسا ہو گیا اور حکومت ان حالت میں انتخابات کی طرف گئی تو پھر عمران خان کا بیانیہ مضبوط ہو گا لہٰذا جیتنے کے کچھ آثار نظر آئیں گے، تو اس کا لب و لباب یہ کہ عمران خان آنے والے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے آئیں گے، بظاہر مشکل لگ رہا ہے لیکن ہونے کو کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
ان دو سوالوں کے ساتھ ایک تیسرا سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود عمران خان کو حکومت مل سکتی ہے؟ یہ تو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا بڑا رول ہے مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے اس اہم رول کی بھی ایک حد ہے۔ آپ کو یاد ہو گا 1988 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے حلقے مکمل طور پر بے نظیر بھٹو کے مخالفین میں سے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت نہیں چاہتی تھی کہ بھٹو مرحوم کی بیٹی بے نظیر بھٹو اقتدار میں آ جائے کیوں کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا خوف تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو اقتدار میں آ گئی تو ایسا نہ ہو یہ اپنے والد کی پھانسی کا بدلہ لے لہٰذا اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل گل حمید نے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے 9 جماعتوں کے اتحاد آئی جے آئی یعنی اسلامی جمہوری اتحاد قائم کی جس کی صدارت غلام مصطفیٰ جتوئی کر رہے تھے اور نواز شریف بھی ملٹری کے بنائے گئے اس اتحاد کے اہم رکن تھے۔ یہ بھی آن دی ریکارڈ ہے کہ جنرل اسلم بیگ اور جنرل گل حمید کئی بار اس کی تائید کر چکے ہیں کہ ہاں آئی جے آئی ہم نے بنائی تھی کیوں کہ اس وقت اس کی ضرورت تھی۔
اب یہ ضرورت کیا تھی؟ ہمارے یہ جرنیل ہمیں یہ تو نہیں بتاتے لیکن یہ ضرورت سب کے سامنے اس وقت منکشف ہوئی جب میجر عامر اور بریگیڈیئر امتیاز آپریشن میڈ نائٹ جیکال میں پکڑے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی مخالفت کے باوجود بے نظیر بھٹو 1988 کے انتخابات میں کامیاب ہوئی اور کل 260 جنرل نشستوں میں سے 92 پر کامیابی حاصل کی۔ 9 جماعتوں کا اتحاد بے نظیر بھٹو کے خلاف ڈھیر ہوا اور یو بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ اس واقعے کو دیکھ کر ہم کهہ سکتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا رول ضرور ہے مگر ایک حد تک، لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود بھی عمران خان کو ہلکا نہیں لینا چاہئے باقی سب کچھ قبل از وقت ہے، آگے آگے دیکھئے گا، ہوتا ہے کیا؟