بلاگزلائف سٹائل

"آپ کیلئے پوری دکان فری میں ہے جو چاہو لے لینا ناراض کیوں ہوتی ہو”

سلمیٰ جہانگیر

"کیوں خفا ہو ادھر دیکھو آؤ جو چاہیے وہ دے دوں گا، اوہو! گھورنا کیسے، مفت میں لے جاؤ!” یہ الفاظ اس بے غیرت دکاندار کے منہ سے نکلے جس کی دکان اتنے رش میں بھی لوگوں سے خالی تھی۔ اور شائد جس نے راہ چلتی عورتوں اور لڑکیوں پر کتوں کی طرح بھونکنا اپنا پسندیدہ مشغلہ بنا لیا تھا۔

کچھ دن پہلے ایک دوست کے ساتھ بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ چونکہ عید قریب ہے تو رش معمول سے زیادہ تھا۔ اندرون شہر بازار بہت تنگ گلیوں میں بناۓ گئے ہیں، بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے ہماری رفتار میں کمی آ گئی تھی یعنی ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور دوپٹوں کی دکان دھونڈنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ مینہ بازار سے آگے جیسے ہی ہم شاہین بازار میں داخل ہوئے تو عورتوں کی بھیڑ میں قدم لینا دشوار ہو گیا۔

اس وقت ایک طرف سے یہ آواز آئی: "راشہ کنہ زڑگیه څه اخلې؟” جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے ”آ جاؤ جانو کیا لینا ہے؟” ایسی آوازیں عورتوں پر کسنا بہت ہی کم ظرف شخص کی علامت ہے کیونکہ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو کسی کام کے حوالے سے یا بہت ضرورت کی حالت میں نکلتی ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ باہر ان جیسے لوگوں کی آوازیں سنے اور ان کی منحوس شکلیں دیکھے۔

وہ کوئی 20 یا 22 سال کا لڑکا تھا جو نا صرف میری دوست پر بلکہ مجھ پر بھی آوازیں کس رہا تھا۔ میں نے نا چاہتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو ایک جوان لڑکا تھا جو کہنے لگا "آپ کے لیے پوری دکان فری میں ہے جو چاہو لے لینا ناراض کیوں ہوتی ہو”
ایسی بدتمیزی برداشت کرنا کسی بھی شریف عورت کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں کتنی عورتیں اور لڑکیاں روز ہراساں ہوتی رہتی ہیں، اس کی یہ بات سن کر میرے دماغ کا میٹر گھوم گیا اور اچانک میں نے اس لڑکے کو مارنے کے لیے کرسی کھینچی جس پر وہ کھڑا تھا۔ وہ ہڑ بڑا کر دو قدم پیچھے چلا گیا لیکن کچھ لوگوں نے آ کر اسے بچا لیا۔ مجھے حد درجہ زیادہ غصہ آیا ہوا تھا۔ اگر وہ لوگ بیچ میں نا آتے تو اس لڑکے کا سر میں پھوڑنے والی تھی لیکن منہ میں جو کچھ اس وقت آ رہا تھا، کہہ کر دل کا غبار نکال لیا۔ میرے پیچھے کھڑی ایک عورت نے کہا مارو اس کو یہ کب سے بھونک رہا ہے، کبھی میری بیٹی کو اور کبھی مجھے اشارے کر کے تنگ کر رہا ہے۔ وہ عورت دوسری دکان سے کپڑے خرید رہی تھی۔

لوگوں کا ہجوم بڑھ گیا اور مختلف آوازیں آ رہی تھیں کہ یہ بےغیرت کب اپنی حرکتوں سے باز آئے گا، اور کسی کی نصیحت میرے لئے تھی کہ بہن چھوڑ دو بچہ ہے غلطی ہو گئی۔

اگر عوامی مقامات پر ہراسانی کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ ایسی کوئی بھی جگہ نہیں جہاں عورتوں کو ہراساں نا کیا جاتا ہو۔ امریکہ میں قیام کے دوران وہاں مقیم ایک دوست نے بتایا کہ عورتوں کو ہر جگہ ہراسمنٹ کا سامنا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف پشاور کی خواتین اور لڑکیاں اس ضمن میں بدقسمت واقع ہوئی ہیں۔ لیکن میری دوست کے مطابق ہر جگہ ہراسمنٹ کا طریقہ کار اس علاقے کے رہنے والوں پر ہوتا ہے۔ اگر پختون معاشرے میں زبانی کلامی خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے تو ترقی یافتہ ممالک میں ہراسمنٹ کا طریقہ ان سے الگ ہے، وہ اور ایڈوانس طریقوں سے خواتین کو ہراساں کرتے ہیں۔

ہراسانی ایکٹ 2010 کے مطابق ہر وہ قدم ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے جس سے کوئی بھی بندہ چاہے وہ عورت ہو یا مرد تنگ ہوتا ہو یعنی کسی کے لباس پر طنزیہ تبصرہ کرنا، کسی کو گھورنا، غلط القابات سے نوازنا وغیرہ کوئی بھی بات جس سے دوسرے بندے کو نقصان پہنچتا ہو ہراسانی میں آتا ہے۔

میں یہ کہوں گی کہ اگر قانون ہے بھی تو اس قانون پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ چھیڑ چھاڑ کرنے والا اس کو ہرگز ہراسانی نہیں سمجھتا۔ اگر وہ کسی پر آوازیں کستا ہے تو اس کو مستی اور ہنسی مذاق سمجھتا یے جو اس کے نزدیک کوئی برا عمل نہیں لیکن اس کی اس حرکت سے دوسرے کس حد تک متاثر ہوتے یہ صرف ان کو ہی پتہ ہوتا ہے جو اس مرحلے سے گزرتے یا گزرے ہوتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button