پاکستان پولیو فری بن نہیں سکا، شمالی وزیرستان سے کیس رپورٹ
غلام اکبر مروت
گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ ہوا کہ پاکستان میں پولیو اریڈیکیشن کے حوالے سے اطمینان دلایا جا رہا تھا کہ اب
جلد ہی پاکستان پولیو فری ملک بننے والا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 15 مہینوں سے پولیو کا کوئی مثبت کیسز سامنے نہیں آیا تھا۔
لیکن گزشتہ روز 22 اپریل 2022 کو تقریباً 15 مہینوں کے بعد پولیو کا مثبت کیس رپورٹ ہوا، سوا سال کے بچے کی وائلڈ پولیو وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
2022 میں عالمی سطح پر رپورٹ ہونے والا یہ تیسرا مثبت پولیو کیس ہے۔ گزشتہ روز 22 اپریل 2022 کو شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے بچے میں ٹائپ 1 وائلڈ پولیو وائرس (WPV1) کی تصدیق NIH، اسلام آباد میں پاکستان نیشنل پولیو لیبارٹری نے کی۔
9 اپریل 2022 کو پاکستان پولیو لیبارٹری نے بھی اس پولیو وائرس کی موجودگی کی نشاندہی کی تھی کیونکہ اس مہینے کی 5 تاریخ کو خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں سے اکٹھے کئے گئے نمونوں میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی۔
پاکستان پولیو لیبارٹری مختلف علاقوں سے ماحولیاتی نمونے (Environmental samples) اکٹھے کرتی ہے۔ بنوں میں پائے جانے والے وائرس اور وزیرستان کے بچے میں موجود پولیو وائرس میں کافی مماثلت ہے۔ اور یہ دونوں وائرس ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ سال ایک کیس رپورٹ کیا تھا جو 27 جنوری 2021 کو قلعہ عبداللہ، بلوچستان میں ہوا تھا۔
واضح رہے کہ اسی مہینے افریقہ میں بھی پولیو کا ایک مثبت کیس سامنے آیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس وائرس کا تعلق بھی خیبر پختونخوا میں پائے جانے والے وائرس کے گروپ سے ہی ہے۔
اس سال 17 فروری 2022 کو ملاوی میں صحت کے حکام نے دارالحکومت لیلونگوے میں ایک چھوٹے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق کی تھی۔ اور یہ وائرس بھی وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ 1 ہے تھا جو خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے وائرس کی طرح ہے۔ کیونکہ خیبر پختونخوا میں بھی وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ 1 ہی بار بار بچوں میں سامنے آ رہا ہے۔
اس سے پہلے اگست 2020 میں افریقہ کو مقامی وائلڈ پولیو وائرس سے پاک قرار دیا گیا تھا۔ کیونکہ پانچ سال سے زیادہ عرصے تک افریقہ میں پولیو کا کوئی مثبت کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ افریقہ میں وائلڈ پولیو وائرس کا پہلا کیس تھا۔ اس سلسلے میں پاکستان نے ڈبلیو ایچ او ملاوی کے صحت کے حکام کی مدد کر رہے ہیں تاکہ اس کی روک تھام یقینی بنا کر پھیلنے سے روکا جا سکے۔
واضح رہے کہ پاکستان اس سلسلے میں انسداد پولیو ویکسین کے ساتھ اضافی حفاظتی ٹیکہ جات بھی لگوا رہا ہے اور پڑوسی ممالک میں بھی اس بیماری کی نگرانی کو تیز کیا جا رہا ہے۔ گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشی ایٹو (GPEI) ریپڈ ریسپانس ٹیم جو افریقہ میں ڈبلیو ایچ او کے علاقائی دفتر میں قائم ہے کوآرڈینیشن، نگرانی، ڈیٹا منیجمنٹ، کمیونیکیشنز اور آپریشنز میں مدد کے لئے 17 فروری 2022 سے ملاوی میں ایک ٹیم تعینات کی ہے۔
ملاوی نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تجویز کردہ دو طرفہ اورل پولیو ویکسین کا استعمال کرتے ہوئے وائلڈ پولیو وائرس کی قسم ٹائپ 1 کے خلاف ویکسینیشن مہم شروع کی ہے۔ اس مہم میں 5 سال سے کم عمر کے 2.9 ملین بچوں کو انسداد پولیو ویکسین پلائی جا رہی ہے۔
وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ 1 کی تصدیق کے بعد ملاوی حکومت نے 17 فروری کو پولیو کے وباء پھیلنے کا اعلان کیا تھا جو کہ ملک میں 30 سالوں میں پہلا ایسا کیس اور افریقہ میں یہ پہلا واقعہ تھا۔
قومی ادارہ صحت نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ پاکستان میں 15 مہینے بعد پولیو کا پہلا کیس رپورٹ ہوا ہے جبکہ سال 2022 میں دنیا بھر سے یہ تیسرا کیس رپورٹ ہوا ہے۔
22 اپریل 2022 کو قومی ادارہ صحت میں واقع پاکستان نیشنل پولیو لیبارٹری نے شمالی وزیرستان سے پولیو کیس کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان پولیو لیبارٹری نے بنوں سے 5 اپریل کو ماحولیاتی نمونوں میں بھی وائرس کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان میں پچھلے سال 27 جنوری کو قلعہ عبداللہ بلوچستان سے آخری کیس رپورٹ ہوا تھا۔
سیکرٹری صحت عامر اشرف نے کہا ہے کہ "کیس رپورٹ ہونا بچوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ اور بلاشبہ پاکستان اور دنیا بھر میں پولیو کے خاتمہ کی کوششوں کے لئے بڑا دھچکا ہے، ہمیں کیس رپورٹ ہونے پر مایوسی ہوئی ہے تاہم ہم پرعزم ہیں۔” انھوں نے مذید کہا کہ "کیس خیبر پختونخوا سے رپورٹ ہوا ہے جہاں سے ماحولیاتی نمونوں سے وائرس کی نشاندہی کی گئی تھی، یہاں پر پہلے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے گئے ہیں۔”
سیکرٹری صحت نے کہا کہ "قومی اور صوبائی قومی ایمرجنسی آپریشنز سنٹر کیس کی مکمل جانچ پڑتال کے لئے ٹیموں کو ڈیوٹی پر لگایا جاچکا ہے اور وائرس کے مزید پھیلاؤ کے روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر مہمات چلائی جا رہی ہیں تاکہ وائرس کے مزید پھیلاؤ کی روک تھام کی جا سکے۔”
سال 2021 کی آخری سہ ماہی میں جنوبی خیبر پختونخوا سے ماحولیاتی نمونوں سے وائرس رپورٹ ہونے کے بعد پروگرام نے پولیو وائرس کے لئے حساس قرار دیا تھا۔ خیبر پختونخوا کے ڈی آئی خان اور بنوں ڈویزن سے ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
کوآرڈینیٹر قومی ایمرجنسی آپریشنز سنٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا ہے کہ "جنوبی خیبر پختونخوا میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہر بچے تک ویکسین کی رسائی لازمی ہے۔” ڈاکٹر شہزاد بیگ نے مزید کہا ہے کہ "جنوبی خیبر پختونخوا میں درپیش چیلنجز کے خاتمے کے لئے حکومت اور عالمی شراکت دار پہلے سے ہی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں تاکہ وائرس کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔”
سال 2020 میں خیبر پختونخوا سے 22 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ پچھلے سال صوبہ سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
انسداد پولیو مہمات میں کامیابی کے لئے موثر حکمت عملی بنائی گئی تاہم سیکیورٹی سمیت بعض مسائل کا تاحال سامنا ہے، ان مشکلات کے باوجود ہمارے بہادر فرنٹ لائن ورکرز بچوں تک ویکسین کی رسائی ممکن بنا رہے ہیں۔
بیان کے مطابق دنیا بھر سے پولیو وائرس ٹائپ ون اور ٹو کا خاتمہ ہو چکا ہے جبکہ ڈبلیو پی وی ون میں تاریخی کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں برس ایک کیس افغانستان اور ایک کیس ملاوی سے رپورٹ ہوا ہے۔
پروگرام وائرس کے مکمل خاتمے کے لئے اپنی بھرپور جدوجہد جاری رکھے گا، والدین ہر مہم میں اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلوائیں۔
پاکستان اور افغانستان کے بعد ملاوی دنیا کے تین ممالک ہیں جہاں پر پولیو وائرس ابھی بھی ہے جب تک اس وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیا جاتا، وائرس سے بچوں کو خطرہ رہے گا۔