ماخام خٹک
کسی بہی خوا نے بڑے دکھی انداز میں بڑے پتے کی بات پوسٹ کی ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ حکمران جب اقتدار سنھبالتے ہیں تو لاھور اور کراچی کا رخ کرتے ہیں اور جب اقتدار سے فارغ یا فارغ کر دیئے جاتے ہیں تو پھر پشاور کی یاد انہیں ستاتی ہے۔
اب یہ پوسٹ کی ہوئی بات نہ صرف درست ہے بلکہ برمحل بھی ہے۔ عمران خان نے گو کہ اقتدار سے فارغ ہونے یا اقتدار سے فارغ کئے جانے کے بعد پشاور ہی سے اپنی سیاسی مزاحمت کا آغاز کیا اور لوگوں کو بھی اکٹھا کیا لیکن اس کے باوجود پشاور کے سنجیدہ لوگ یہ بات بالکل نہیں بھولے کہ جب پشاور میں جمعے والے دن خودکش دھماکہ ہوا تھا اور اس میں ساٹھ کے قریب یا اس سے زائد لوگ شہید اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے تو عمران خان پورے ملک سیاسی مقاصد کے لئے گھومے پھرے، جلسے جلوس منعقد کئے لیکن پشاور جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی، سوگوار اور متاثرہ خاندانوں سمیت پشاور کے سنجیدہ حلقے اس بات کو نہ صرف دل پہ لے چکے ہیں بلکہ ان کے دماغ میں بھی یہ سیاسی اور منافقانہ وتیرہ رچ بس گیا ہے کہ حکمراں ہمیں کس طرح اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور پھر کس طرح استعمال کر کے پرسوز اور کھٹن حالات میں اکیلے اور یک تنہا چھوڑ جاتے ہیں بلکہ اب تو سنجیدہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جن کو سیاسی سٹیج پر بہترین مداری پن کا فن آتا ہو، مجمع لگا سکتا ہو، سانپ اور نیولے کی لڑائی کی گردان کر کر کے اپنا چورن اور سانڈھے کا تیل پیچ سکتا ہو وہ نہ صرف اچھا سیاستداں بلکہ اچھا کاروباری اور بزنس میں بھی مانا جاتا ہے۔
مداری کتنے لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے گو کہ اہل نظر لوگ بولتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں یا یہ وہ ہجوم ہوتا ہے جو کم پڑھے لکھے اور سلم ایریاز سے تعلق رکھتے ہیں اور مداری جاتے بھی ان ہی ایریاز میں ہیں جہاں ان کا چورن اور سانڈھے کا تیل بکتا ہو۔ اور جمہوریت میں بھی تو عددی سروں، ووٹ بینک اور کرسیاں بھرنا اور سٹیج سجانا دیکھا جاتا ہے۔ ایک دانشور، ایک ڈاکٹر، ایک وکیل اور ایک پروفیسر کا ووٹ تو ویسے بھی برابر ہوتا ہے تو پھر فرق کیا پڑتا ہے یا پھر سیاستدانوں کو کیا پڑی ہے کہ اپنے لئے لکھے پڑھے لوگوں کا روگ پالےں جو ان پر سوالات کریں، ان پر انگلی اٹھائیں، ان سے بحث کریں، انہیں انسٹرکشن دیں تو کیوں نہ ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے کہ لوگ بھی بڑی تعداد میں آئیں، اپنا چورن، منجن اور سانڈھے کا تیل بھی بکے اور چندے کی صورت میں انہیں پیسے بھی ملیں اور جم غفیر سے یہ بھی تاثر ملے کہ یہ سب کے سب ان کے متوالے اور چاہنے والے ہیں۔
عمران خان کو پشاور نے شروع سے سپورٹ کیا ہے، ذاتی طور پر جتوایا ہے لیکن پھر پشاور کی سیٹ چھوڑ کر میاں والی کو ترجیح دے گئے لیکن اب عمران خان نے میاں والی اپنے آبائی علاقے، ددھیال اور ننھیال کی جگہ سے مزاحمت کا آغاز نہیں کیا بلکہ پشاور سے کر چکے ہیں۔ اب مذکورہ پوسٹ کرنے والے شخص کی طرح پشاور والوں کی ستم ظریفی کہیں یا پھر عمران خان کی خوش قسمتی کہ لوگ پھر بھی جوق در جوق جلسے کے لئے آئے اور پشاور جیسی جگہ جہاں اکثر خواتین کو جلسوں میں بہت کم دیکھا جاتا ہے وہ ان کے جلسے میں معمول سے کئی زیادہ نظر آتی ہیں، نعرے بھی لگاتی ہیں، گاتی بھی ہیں اور ناچتی بھی ہیں اور کوئی ان پر اعتراض بھی نہیں کرتا لیکن اگر یہ طرز عمل کسی اور کے جلسے میں اپنایا جائے تو پھر اس طرز عمل کو پختون روایت اور اسلام کے خلاف عمل گردانا جاتا ہے۔
ایمل ولی خان نے باچا خان مرکز میں باچا خان ٹرسٹ کے زیر انتظام موسیقی اور فنون لطیفہ کے سیکھنے کا اعلان کیا کیا کہ انہیں لوگوں نے جو اپنے جلسوں جلوسوں میں ناچ گانے سے نہیں تھکتے، تنقید کرنا تو درکنار برا بھلا کہنے لگے اور ان کو میراثی اور "ڈم” تک کے بیہودہ القابات اور خطابات سے نوازا۔ اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان کا دوسرا مزاحمتی جلسہ جو کراچی میں ہونے جا رہا ہے اور وہ بھی پختونوں کا سب سے بڑا شہر ہے یہاں پشاور کے جلسے کا تسلسل کس طرح برقرار رکھتے ہیں۔ لیکن کراچی ان کا "کور” ( پشتو میں گھر کو کہتے ہیں) یعنی گھر نہیں پشاور تو ان کا "کور” تھا اور جہاں "کور” ہو تو پھر ” کور ” والوں کا سہارا بھی ہوتا یے جو کہ کراچی میں اگر نہ ہو تو ممکن ہے کہ کراچی کے مزاحمتی جلسے میں اتنا جم غفیر بھی نہ ہو۔