جرائم

وزیرستان: گل مرجانہ جب مرجانہ سوکھا بدمعاش بن گئی

بشریٰ محسود

”حالات نے مجھے اس طرح بنا دیا ورنہ پہلے میں بھی آپ کی طرح ایک عام سی عورت دی۔ میرا نام گل مرجانہ تھا لیکن اب مجھے سب مرجانہ سوکھا بدمعاش کے نام سے جانتے ہیں، میری شادی چچا زاد سے ہوئی تھی، ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ شادی کو تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ ہمارے دشمنوں نے ہمارے گھر پر حملہ کر دیا۔ اتفاق سے اس دن میں، میری ساس، میرے دیور کی بہو اور کچھ لڑکیاں شادی پر گئی تھیں، وہاں پر ایک عورت آئی اور روتے ہوئے کہا کہ جلدی سے چھپ جاؤ تمہارے گھر پر حملہ ہوا ہے، شادی میں موجود تمام لوگ بہت پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے، شام کے قریب ایک شخص آیا اور اس نے بتایا کہ تم لوگوں کے گھر کے سبھی افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔”

انتظارگاہ میں بیٹھی ایک عورت جو منہ میں نسوار ڈال رہی تھی، اس نے میرے پاس آ کر کہا۔ وزیرستانی زبان ایسے قتل عام کے لیے خاص لفظ استعمال ہوتا ہے ”خی یی (kheyee)” یعنی کسی خاندان کا نام و نشان تک مٹا دینا اور یہ اکثر جائیداد یا خاندانی دشمنیوں میں کیا جاتا تھا۔

گل مرجانہ سوکھا بدمعاش نے مزید بتایا، ”خی یی” کا سن کر میری ساتھی بے ہوش ہو گئیں، ہمارے گھر بچے بوڑھے جوان مرد عورتیں سب کی لاشیں پڑی تھیں اور ہم ان کا آخری دیدار تک نہیں کر سکتے تھے، صرف یہی نہیں بلکہ ہم لوگوں کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے کوشش شروع ہو گئیں کیوں کہ اب ہماری باری تھی۔ پورے گاؤں میں قیامت کا سماں تھا کیوں کہ ایک ساتھ بہت ساری لاشیں پڑی تھیں۔ ہم لوگوں کو دور ایک دوسرے گاؤں میں بھیجا گیا۔ جہاں کافی عرصہ رہنے کے بعد ہمارے گاؤں کے ملک لوگوں نے ذمہ داری لی، جرگے میں فیصلہ ہوا اور ہم لوگوں کو واپس اپنے گھر لایا گیا۔ دشمن نے بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔

کچھ دن گزرے تھے ہماری لڑکیاں پانی لانے جا رہی تھیں تو مخالفین کے لڑکوں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی۔ جب یہ بات مجھے بتائی تو میں ساری رات جاگتی رہی اور سوچتی رہی کہ اب کیا کریں گے، ہم ساری عورتیں ہیں زندگی اب کیسے گزاریں گے، اس رات پہرہ دیتے ہوئے میں نے ایک فیصلہ کیا اور اگلی صبح گھر کا سارا زیور لے کر اپنے جاننے والے ایک گھرانے کے پاس گئی اور اسلحہ خرید کر گھر واپس آ گئی۔ ایک مرتبہ مخالفین نے رات کو ہمارے گھر کی چار دیواری پھلانگنے کی کوشش کی، میں AK47 چلانا جانتی بھی نہیں تھی لیکن خوف نے مجھے اتنا بہادر بنا دیا کہ ان پر فائرنگ شروع کر دی، وہ حیران اور پریشان ہو کر بھاگنے لگے ان کو لگا شاید کوئی مرد ان کے ساتھ ہے، فائرنگ سے ایک شخص زخمی بھی ہوا جو راستے میں دم توڑ گیا اور اگلی صبح پورے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی کہ مرجانہ نے اک مرد کو قتل کیا ہے۔

جب جرگے کے لوگ میرے پاس آئے تو میں نے ساس سے اجازت لے کر ان سے بات کی۔ میں نے ان کو ساری بات بتائی، گاؤں کے لوگوں نے بھی میرا ساتھ دیا اور یوں جرگے نے ان کو جرمانہ کیا۔ مجھے اس دن اتنا حوصلہ ملا جیسے میں نے سب کا بدلہ لے لیا ہو۔ تب سے پورے گھر اور باہر کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگی۔ جب بھی بچیاں لکڑیاں یا پانی لانے جاتیں تو اکثر اوقات مخالفین تنگ کرنے کی کوشش کرتے تو میں فائرنگ شروع کر دیتی اور وہ بھاگ جاتے۔ اس طرح کے کئی واقعات ہوئے جن میں، میں نے مزید پانچ افراد کو قتل کر دیاَ مجھ پر بھی فائرنگ ہوتی لیکن اللہ بچا لیتا۔ ہم لوگ کسی بھی عورت کو اپنے گھر آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، اس میں بھی ایک راز تھا، میرے دیور کی بہو اس وقت حاملہ تھی جب ہمارے گھر کے تمام افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ خوش قسمتی سے اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ ہمارے گھر کے دروازے ہمیشہ بند رہتےِ یہ واحد مرد تھا ہمارے گھر میں اور ہمارے جینے کی وجہ بھی، ہم ہر حال میں اس کو سنبھال کر محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

وقت گزرتا گیا اور میری دہشت پورے علاقے میں پھیل گئی اور آہستہ آہستہ گاؤں کی عورتیں اپنے مسئلے مسائل میرے پاس لے کر آنے لگیں۔ ایک بوڑھی عورت کی بیٹی کو سسرال والے بہت تنگ کرتے تھے، وہ میرے پاس آئی اس کا کوئی نہیں تھا سوائے اللہ کے، ایک ہفتے بعد وہ بڑھیا سفید چادر، مٹھائی کے علاوہ میری بندوق کیلئے موتیوں سے بھرا ہار لے لائی، وہ روتی رہی اور مجھے بہت ساری دعائیں دیتی رہی کیوں کہ اس کے سسرال والوں نے میری بات مان لی تھی اور اس کی بیٹی سے معافی مانگ کر اسے اپنے گھر لے گئے تھے، تب اس نے کہا تم مرجانہ نہیں بلکہ مرجانہ سوکھا بدمعاش ہو۔ یوں میرا نام گل مرجانہ سے مرجانہ سوکھا بدمعاش پڑ گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ گاؤں کا کوئی بھی جرگہ میرے مشورے اور رائے کے بغیر نہیں ہوتا۔ میں ان مردوں کے ساتھ بیٹھتی نہیں تھی بلکہ وہ ہمارے گھر کے باہر جرگہ لگاتے اور میں گھر کی چھت پر بنے مررچے میں بیٹھی ہوتی اور ان سے گفتگو کرتی۔

وقت اور حالات بدل جاتے ہیں۔ ماشاء اللہ اب میرے بچے کی شادی بھی ہوئی ہے، اس کے تین بیٹے بھی ہیں۔ میں اب پورے علاقے کی عورتوں کی جان ہوں، ہمارے خاندانی دشمنوں نے بھی صلح کر لی ہے، ان کی عورتوں کے مسائل بھی اب میں حل کرتی ہوں، میں نے جرگے میں اپنے مخالفین کو تمام خون معاف کر دیئے تھے۔”

یہ کہانی صرف گل مرجانہ کی نہیں بلکہ ایسی ہزاروں عورتوں کی کہانی ہے جن کو حالات وقت سے پہلے بوڑھا اور مرد بنا دیتی ہیں۔ لالچ، ہوس اور فرسودہ روایات ہزاروں زندگیاں برباد کر دیتی ہیں۔ جب تک ہماری فرسودہ روایات، رسم و رواج معاشرے کا حصہ ہوں گے تب تک ہزاروں گل مرجانہ سے مرجانہ سوکھا بدمعاش بنتی رہیں گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button