سیاستکالم

حق مغفرت کرے عجب ”کھلاڑی” تھا میچ ہارا پر ریکارڈ بنا کر چلا گیا

ماخام خٹک

میچ ہارے پر ریکارڈ بنا کر چلے گئے۔ کسی کھلاڑی کے لئے انفرادی ریکارڈ کا حصول اس کے ذاتی کرئیر کے لئے بڑا معنی رکھتا ہے گرچہ وہ اپنے انٹرویو میں اخلاقی طور پر پھر بولتا ضرور ہے کہ اگر میچ جیت لیتے تو مجھے اس ریکارڈ کے حصول سے جیت کی خوشی زیادہ ہوتی۔ اب میچ اوور ہو چکا ہے، تمام کھلاڑی پویلین واپس جا چکے ہیں اب اس کھیل پر ماہرانہ رائے کے ساتھ ساتھ عوامی رائے زنی شروع ہو چکی ہے اور اکثر کھیل کے اختتام پر انفرادی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی کارکردگی اور جیتنے والی ٹیم کو زیادہ سراہا جاتا ہے اور ہارنے والی ٹیم کی کمزوریوں کو زیربحث لایا جاتا یے۔

کھیل کے دوران ہم اکثر ایک جملہ بار بار سنتے رہتے ہیں "لیڈنگ فرام دی فرنٹ” اور یہ تب سنتے ہیں جب میچ کے دوران کپتان خود گراؤنڈ میں موجود ہو اور صرف موجود ہی نہ ہو بلکہ اس کی کارکردگی بھی سب سےاچھی نظر آ رہی ہو۔ کپتان جب دعوی کرے کہ وہ میچ آخری گیند تک لے جائے گا تو اس سے مراد اچھے مقابلے کی لی جاتی ہے۔

جب ہم پارلیمنٹ کے میدان میں قومی اسمبلی کی پچ پر کھیلے گئے میچ کی جھلکیاں دیکھتے ہیں تو ہمیں کپتان میدان میں کسی بھی پوزیشن پر کھیلتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ دیگر کھلاڑیوں کی کارکردگی میں بھی جان نہیں تھی گو کہ کپتان ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہے تھے، ٹاس بھی وہ جیت چکے تھے اور پہلی باری بھی وہ کھیل رہے تھے لیکن پہلے ہی اوور میں پچ کی خرابی کا بہانہ بنا کر ٹیم کو پویلین لے جا کر بٹھا دیا۔

میچ پھر ریفری کے فیصلے سے دوبارہ کھیلا گیا۔ جس پر میچ شروع ہوتے ہی بلکہ پچ پر دونوں اوپنرز کو ریٹائرڈ ہرٹ دکھا کر کپتان نے واپس بلایا اور مزید کھلاڑی کھیلنے کے لئے دستیاب ہی نہیں تھے کیونکہ وہ میچ فکسنگ کے مرتکب ہو گئے تھے اور کپتان سمیت ان پر پابندی، سزاوں یا جرمانوں کے بھی امکانات نظرانداز نہیں کئے جا سکتے تھے جس پر فتح مخالف ٹیم کو بغیر کھیلے نصیب ہوئی جبکہ تماشائی بھی مخمصے میں آ گئے اور دونوں جانب سے شور شرابا اتنا زیادہ ہو گیا کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی کہ وہ کپتان جو آخری گیند تک کھیلنے کا عندیہ دیئے ہوئے تھے وہ کیسے بغیر گیند کھیلے میچ مخالف ٹیم کو دے گئے؟

دونوں ٹیموں کے سپورٹرز چیخ و پکار اور اپنی اپنی ٹیموں کو نعرے بازی سے سپورٹ کرتے رہے۔ تماشائی بھی دونوں جانب سے قصوروار نہیں تھے۔ وہ اصل میں ٹیسٹ میچ کے ٹکٹ خرید کر آئے تھے لیکن میچ ون ڈے تو درکنار ٹی ٹونٹی طرز پر بھی نہیں کھیلا گیا۔ اب سیاسی آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں بھی اونچ نیچ ہوئی اور کپتان کی ٹیم کے بجائے مخالف ٹیم کی نہ صرف پوزیشن بہتر ہوئی بلکہ کپتان سے پہلی پوزیشن بھی چھین لی گئی۔

اور اب مخالف ٹیم کی سیاسی آئی سی سی رینکنگ میں اس پوزیشن پر آئی جہاں کپتان کی ٹیم کی پوزیشن تھی۔ پھر بھی کپتان نے اس میچ کے دوران پچ خراب کرنے کی عالمی سازش کا سہارا لیا اور تماشائیوں کو بھی جو ان کے سپورٹر تھے اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور تماشائی گراونڈ کے بجائے میچ کو گلی کوچوں، سڑکوں اور بازاروں میں لے آئے اور اس میچ کی جیت کو متنازعہ بنا کر میچ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔

اور اب کی بار کپتان کے ساتھ تماشائی میچ کھیلنے میں نظر آئے۔ اور چونکہ کپتان کے ساتھ بارہ کھلاڑی پورے نہیں ہو رہے تھے تو تماشائیوں کی طرف سے ریفری کے خلاف نعرے بازی کا فیصلہ کیا گیا اور یہ بھی دھمکی دی گئی کہ نہ میچ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے جب کہ مخالف ٹیم نے اپنے سپورٹر، تماشائیوں کے باعث اپنی ہی ٹیم کے بارہ کھلاڑیوں کو چھ چھ میں تقسیم کر کے ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا اور جیتا اور تماشائیوں کو بھی محظوظ کیا۔

اب میچ بظاہر ختم ہو چکا ہے لیکن ماہرانہ آراء اس پر جاری ہیں اور ہر ماہر اس پر اپنی بساط اور اپنی دانست کے مطابق رائے زنی کر رہا ہے۔ اب دیکھتے ہیں آنے والے ٹورنمنٹ (چیلنجز) میں موجودہ جیتی ہوئی ٹیم کیا کارکردگی دکھاتی ہے اس کے لئے مزید انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ اس ٹیم میں بھی مخالف جگہوں کے کھلاڑی ہیں، وہ کون کون سی پوزیشن پر کھیلنا پسند کریں گے گراونڈ میں اتر کر ہی پتہ چلے گا۔

تماشائیوں کا کام ہے ٹکٹ لینا بھلے میچ کوئی بھی جیتے یا کوئی بھی ہارے اور آنے والے ٹورنمنٹ کے لئے تماشائی (عوام) نے ٹکٹ پہلے سے بک کرا دیئے ہیں۔ اللہ کرے کہ مطلع صاف ہو تاکہ ٹورنمنٹ خیر سے مکمل ہو جائے۔

اقبال شاہ ایڈووکیٹ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور سندھ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ شعر و ادب سے بھی علاقہ ہے اور ماخام خٹک کے قلمی نام سے شاعری کے علاوہ مختلف اخبارات و رسائل کے لئے بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button