شمائلہ آفریدی
”خانان بہ بیا سرہ خانان وی
پہ کی بہ دَل شی د رامبیل چامبیل گلونہ”
یہ پشتو ٹپہ آج کل کے حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے جس کا مطلب کچھ یوں بنتا ہے کہ خان تو آپس میں پھر بھی خان رہیں گے لیکن دونوں کے بیچ (لڑائی) میں دوسروں کے لخت جگر کچلے جائیں گے۔ یا یو کہہ لیں کہ سرمایہ دار جب دشمن بن جاتے ہیں تو ان کی دشمنی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی بلکہ یہ آپس میں اپنے مفاد کی خاطر دوبارہ دوست بن جاتے ہیں لیکن ان کی آپسی دشمنی کی بھینٹ غریب کی اولاد چڑھ جاتی ہے۔
اس ٹپہ پر غور کیا جائے تو کچھ ایسا ہی حال ہمیشہ سے پاکستان میں سیاست کا رہا ہے جہاں اقتدار کی باگ ڈور کے واسطے قربانی کا بکرا غریب عوام کو بنایا جاتا ہے۔ جب بھی ملک میں سیاسی بحران ابھرنے لگتا ہے تو اس کے اثرات عوام پر سب سے زیادہ پڑتے ہیں۔ ایک طرف سیاسی پارٹیاں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتی ہیں تو دوسری طرف عوام بھی پیچھے نہیں رہتی۔ کوئی سیاسی پارٹی جب اپنے مفاد کیلئے مخالف پارٹی کے خلاف احتجاج کیلئے صرف ایک ٹویٹ کرتی ہے تو قربانی کے بکرے گھروں سے نکل کر سب کچھ چھوڑ کے لیڈر سے وفاداری نبھانے کیلئے پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ کبھی مشتعل ہو جاتے ہیں، ہاتھا پائی بھی ہوتی ہے اور اپنی زندگیوں سے ہاتھ بھی دو بیٹھتے ہیں جبکہ ظالم لیڈران سکون و آرام سے اپنے گھروں میں سامنے ٹی وی پر عوام کا تماشہ دیکھ کر ان کی بے وقوفی پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہی مخالف لیڈر آپس میں دوست ہوتے ہیں لیکن ان کی مخالفت کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہیں۔
عوام غربت، مہنگائی، بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں، وطن عزیز درجنوں مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن ہر روز حکومت یا اپوزیشن ایک نیا فساد کھڑا کر دیتی ہے اور عوام کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔
جب کبھی میں سوشل میڈیا دیکھتی ہوں تو ہر کوئی توہین آمیز مواد، جھوٹے پروپیگنڈے، الزام تراشیوں، غیراخلاقی القابات کے زریعے نفرت کو ہوا دے رہا ہے، ایک کشمکش و مسلسل بے چینی محسوس ہوتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ قوم کے مسیحا کہلانے والے نام نہاد لیڈران نے قومی مفاد کیلئے اتحاد کا درس دے کر احتجاج کیلئے عوام کو نہیں بلایا لیکن اقتدار کے حصول کیلئے ہر کوئی عوام کے ٹولے بنا کر انہیں استعمال کر رہا ہے۔ افسوس پاکستانی عوام پر بھی ہے کہ ایک دن بھی ایسا احتجاج یا جلسہ نہیں دیکھا جہاں عوام اجتماعی طور پر اپنے حقوق کیلئے اسلام آباد کا رخ کر چکے ہوں۔
میں سب سے التجا کرتی ہوں کہ اگر کسی کی اصلاح کرنے کی توفیق نہیں ہے تو براہ کرم کسی پارٹی کی باتوں میں آ کر نفرت انگیز غلط بیانیوں سے بھی اپنے ضمیر کو گندا نہ کریں۔ یقین مانئے آج جو اپوزیشن حکومت آپس میں لڑ رہی ہیں اسی اپوزیشن میں شامل پارٹیاں کچھ وقت بعد بکھر جائیں گی اور کچھ پارٹیاں حکومت کے ساتھ مل جائیں گی اور آپس میں دوست بن جائیں گی۔ یہ سیاسی پارٹیاں جہاں اپنا مفاد دیکھتی ہیں اسی کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہیں، ان کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے صرف اقتدار کی ہوس ان کے سر پر سوار ہوتی ہے، ان کیلئے اپنے ضمیر مت بیچیے۔ کسی بھی پارٹی کے لیڈر کو آپ کی عزت اور جان و مال کی کوئی پرواہ نہیں اگر کل آپ تڑپ تڑپ کر سڑک پر جان بھی دے دیں تو یہ لوگ آپ کو لات ماریں گے آپ کو سڑک سے نہیں اٹھائیں گے۔
اپنے آپ کو پہچانئے، ہوش سے کام لیں، عقل کا استعمال کریں، آپ کو استعمال کیا جا رہا ہے، جو آپ کو کسی قسم کا فائدہ نہیں دے سکتے ان کیلئے قربانی کا بکرا مت بنیں۔