”تانگہ کیا ہوتا ہے۔۔” اچانک بھتیجے نے سوال کر دیا
رانی عندلیب
اپنے بھتیجے کو بچپن کی باتیں بتا رہی تھی، اسے بتایا کہ میں بچپن میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتی تھی تو اڈے سے لے کر دیہات یا گاؤں تک کا سفر تانگے میں کرتے تھے، گاؤں میں گھر سارے مٹی کے بنے ہوتے، سڑک کے دونوں اطراف کھیت ہوتے جبکہ بیچ میں راستہ بھی کچا ہوتا تھا۔۔
”تانگہ کیا ہوتا ہے۔۔” اچانک میرے بھتیجے نے بیچ میں یہ سوال کر دیا، اور بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ اپنے بھتیجے کو تانگے کی تفصیل بتانے لگی کہ گھوڑا ہوتا ہے اور لکڑی کی گاڑی ہوتی ہے، ساتھ میں تصویر دکھا کر اسے سمجھانا پڑا کیونکہ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔
بات نکلی تو میں نے انگیٹھی کا ذکر بھی کیا تو میرا بھتیجا مجھے ہک بک رہ گیا۔ میں نے بتایا کہ آج کل بھی پہاڑی علاقوں میں استعمال کرتے ہوں گے۔ پرانے زمانے میں بھی انگیٹھیاں ہوا کرتی تھیں، لکڑی کے برادے سے یا کوئلے سے بھر کر لوگ استعمال کیا کرتے تھے۔ لالٹین اور موم بتی کا استعمال بھی زیادہ ہوتا تھا کیونکہ بجلی نہیں ہوتی تھی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ تو اب بھی ہوتی ہے لیکن موبائل فون میں ٹارچ کی وجہ سے لالٹین اور موم بتی دم توڑ گئے البتہ دستی پنکھوں کو سب پہچانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دستی پنکھوں کا استعمال زیادہ ہے اور سائنسی دور میں اس کی جگہ کوئی نہ لے سکا۔
جدید دور نے جہاں انسان کی تمام مشکلات کو آسان کر دیا وہاں بہت ساری چیزوں نے اپنی اصل شناخت کھو دی ہے۔ بلکہ بعض تو ایسی زوال پذیر ہو گئیں کہ سرے سے نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔
اب ہم اپنے بچوں کو پرانی اور زوال پذیر چیزوں کی تصویریں دکھا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم بچے تھے تو یہ تمام آسائشیں دستیاب ہوتی تھیں۔ سائنس نے جہاں بہت زیادہ ترقی کی ہے ہمارے لئے آسائشیں پیدا کی ہیں تو دوسری طرف ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی۔
وقت کے ساتھ ساتھ کافی چیزیں زوال کا شکار ہو گئی ہیں۔ ایسی بہت سی خوبصورت چیزیں جو ہمیں اپنے بچپن میں دیکھنے کو ملتی تھیں آج نہیں ملتیں، آج کل کے بچے جن کا ذکر حیران ہو کر سنتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں ایسی چیزیں بھی ہوا کرتی تھیں، وہ یہ باتیں ایسے سنتے ہیں جیسے دنیا کے آٹھویں عجوبے کے بارے میں انہیں بتایا جا رہا ہو جب کہ وہ نہیں جانتے کہ ہم جن چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ اتنے بھی پرانے نہیں بس اج سے دس یا پندرہ سال پہلے کی تو بات کر رہے ہیں۔
لیکن ان دس پندرہ سالوں میں تبدیلی اس قدر ہو گئی کہ چیزوں نے اپنی اصل شناخت کھو دی ہے۔ پندرہ سال پہلے ہمارے پاس ایک، دو اور پانچ روپے کے نوٹ ہوا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نوٹوں میں بھی تبدیلی آئی اور آج کل کے بچے پرانے نوٹ نہیں پہچانتے۔
پیسوں کی بات نکلی تو ہم ”گولخ” کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں مٹی سے بنے ہوئے خزانے ہوتے تھے جس میں ہم ایک اور دو روپے کے نوٹ جمع کرتے اور عید پر یا خاص فنکشن پر اسے توڑ کر اپنی من پسند چیزیں خرید لیتے تھے اور پھر آئندہ عید کے لیے دوبارہ ‘گولخ’ خرید لیتے، اس کی جگہ اب بڑے بڑے لاک والے بکس آئے ہیں جن کو ڈیکوریشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر دیکھا جائے آئے تو ہماری دادی چارپائی کا خاص خیال رکھتی تھیں، گھر کے بڑے بڑے صحنوں میں چارپائی بچھی ہوتی تھی، چارپائیوں کے بان بار بار ٹھیک کروانا پھر گرمیوں کے موسم میں سب رات کو صحن میں پنکھے کے سامنے سوتے۔ بلکہ گرمیوں میں چارپائیوں کا خاص اہتمام اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ باہر کی تازہ ہوا مل سکے۔
آج کل گرمیوں میں نہ کوئی صحن میں سوتا ہے نہ کوئی باہر چارپائی ڈالتا ہے کیونکہ اے سی کے آنے سے یہ رواج ختم ہو چکا ہے۔
ایک اور بات بھی ہے کہ سائیکل صرف بچوں کی ہو کر رہ گئی، بڑوں کا سائیکل چلانے کا دور ختم ہو گیا۔ پہلے زمانے میں لوگ سائیکل کا استعمال بہت زیادہ کرتے تھے اس لیے پرانے وقتوں میں اتنی زیادہ بیماریاں بھی نہیں ہوا کرتی تھیں، سائیکل چلانے سے ایکسرسائز بھی ہوتی تھی۔ لیکن اب سائیکل کا ذکر بھی کرے کوئی تو لوگ اس کو کمتر نظروں سے دیکھتے ہیں کیونکہ سائیکل کی جگہ اب گاڑی نے لے لی ہے۔
اس کی وجہ سے کافی آلودگی بھی ہو گئی ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے بزرگ بھی سائیکل چلاتے تھے تو وہ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کے بڑے بوڑھے اور بزرگ لوگ بھی سائیکل چلاتے تھے کیونکہ ان کے ذہنوں میں صرف گاڑیاں ہیں اور موٹر بائیک، گاڑیوں کی وجہ سے تو بہت ساری بیماریاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن کوئی بھی ان بیماریوں کو نہیں دیکھتا بلکہ ان آسائشوں کو دیکھتا ہے۔