ماخام خٹک
لوگوں کو انتہا کی تشویش تھی کہ پتہ نہیں عمران خان ایسا کون سا سرپرائز دے گا۔ جب سے عمران خان نے کہا تھا کہ ستائیس مارچ کو وہ پریڈ گراونڈ میں ٹرمپ کارڈ استعمال کرے گا یا دیسی لہجے میں ترپ کا پتہ بروئے کار لائے گا تو عام و خاص اور میڈیا آئے دن اس بحث میں مبتلا نظر آئے اور جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق ہر کوئی اپنی اپنی رائے داغ رہا تھا پر کسی کو بھی ککھ پتہ نہیں تھا کہ وہ ٹرمپ کارڈ یا سرپرائز ہے کیا؟
ستائیس تاریخ تھی اور عوام تھی کہ پریڈ گراونڈ کی طرف بڑھی چلی جا رہی تھی اور امر بالمعروف کا مذہبی نعرہ سیاست میں رنگ یا پینٹ کر کے عوام کے لئے پرکشش اور جاذب نظر بنا دیا گیا تھا۔ گو کہ اکثریت کو اس لفظ کا معنی اور مطلب کا پتہ ہی نہیں تھا جس کا پتہ مختلف چینلز کے اینکرز پرسنز کے عوام سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات سے چلتا ہے۔
تقریر اور جلسے میں آئے ہوئے جم غفیر کا انداز وہی پرانے دھرنے کا تھا، وہی نوجوان لڑکے لڑکیاں، وہی مستورات عینک لگا کر اور خود کو سجا کر ڈھول کی تھاپ پر محو رقصاں تھیں۔ نعرے، شور و غل، وہی عمران خان کی ہیرو کی شکل میں انٹری لیکن اس بار ہیلی کاپٹر میں جلسہ گاہ میں آئےـ وہی تقریر، وہی اٹھارہ سال کی عمر میں یورپ گئے تو انھیں پتہ چلا کہ فلاحی ریاست کیا ہے، وہی بار بار بولنا کہ سنو، سنو میرے پاکستانیو سنو بہت اہم بات کرنے جا رہا ہوں، یہ بہت اہم تقریر ہے۔ وہی کرکٹ کی باتیں، وہی ورلڈکپ جیتنے کی باتیں، وہی مقامی اور نیوٹرل ایمپائر کی باتیں، وہی بار بار مائیک کی درستگی کی جانب توجہ مبذول کرانا، وہی ریاست مدینہ کا ورد، وہی بدزبانی، وہی برے القابات اور خطابات، وہی چوری، وہی ڈاکو، وہی تلاشی، وہی این آر او حتی کہ وہی گانے، وہی گانے والے! البتہ صبح کی آذان کا ٹپہ پشتو ضرب المثل کے مصداق مغرب کی اذان میں سنائی دیا۔
لیکن دو ڈھائی گھنٹے میں اگر کوئی کام کی بات تھی تو وہ بھٹو، بھٹو کی پھانسی، بھٹو کے سیاسی جانشینوں کا بھٹو کے دشمنوں کے ساتھ بیٹھنا، بیرونی سازش، اور بیرونی ہاتھ اور بیرونی پیسہ، بیرونی دھمکی اور ایک خط! بالکل ایسا طریقہ بھٹو صاحب نے بھی اپنایا تھا جب ایوب خان نے تاشقند میں شاستری کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تو بھٹو صاحب ایک خط دکھایا کرتے تھے کہ وقت آنے پر دکھاؤں گا لیکن آخری دم تک دکھایا نہیں۔
زیڈ اے بھٹو نے راجہ بازار میں عوامی جلسے سے کہا تھا کہ سفید ہاتھی میرے خلاف سازش کر ہا ہے، مجھے ہٹایا جا رہا ہے۔ بھٹو صاحب کے سفید ہاتھی اور عمران خان کے ایبسلوٹلی ناٹ اور خط میں مہا کی قدر مشترک ہے لیکن ساتھ ساتھ عمران خان یہ بھی کہتا ہے کہ میں بھٹو نہیں ہوں، اب پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ یہ ستر کی دہائی نہیں یہ دو ہزار بائیس ہے، اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ اب نیوٹرل عمران خان کے ساتھ نہیں ہیں کیونکہ اب بھٹو کے جانشین نیوٹرل کے ساتھ یا بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھ گئے ہیں۔ خط بھٹو صاحب کا ہو، خط قطری ہو یا عمران خان کا، خط خط ہی ہے۔ یہ کسی کو پڑھنے کو نہیں ملے گا اور نہ کوئی اس کے مندرجات سے واقف ہو گا۔ اور پھر جب بندہ یہ بھی بولے یعنی آن دی ریکارڈ خط کاغذ کی شکل میں دکھائے یا لہرائے اور اگر کوئی دیکھنا یا اس خط کے بارے میں پوچھنا چاہے تو وہ آف دی ریکارڈ ان کو دکھا بھی سکتا یے۔
آف دی ریکارڈ تو ہم بہت ساری باتیں کرتے ہیں، شاید عمران خان کا سرپرائز یا ترپ کا پتہ آن دی ریکارڈ سے آف دی ریکارڈ خط کی سفید پرچی کی جانب مراجعت تھی جو انہوں نے اپنی جیب سے نکالا اور عوام اور میڈیا کو گواہ بنا کر دکھایا یا لہرایا۔
عمران خان سے پہلے جن جن صاحبان مثلاً علی زیدی، اسد عمر، شیخ رشید، شاہ محمود قریشی وغیرہ نے جو تقاریر کیں، وہ بھی دھرنے کی ریہرسل تھی، وہ بھی عوامی جذبات کو للکارنے، گرمانے اور ٹائیگر فورس کی رگوں میں چلتے خون کو مزید چال کے لئے کارگر اور ایندھن کا کام دے رہی تھی۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کئی وزراء عمران خان کی تقریر کے دوران سٹیج چھوڑ گئے جن میں مراد سعید اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی بھی شامل تھے۔ اس کی وجوہات کیا تھیں یہ اپنی جگہ لیکن اتنی جرات یا مجال کسی کی نہیں کہ وہ عمران خان کی تقریر کے دوران سٹیج سے چلا جائے۔
عمران خان کی کمزوری پارٹی ارکان پر اپنی گرفت نہ رکھنے کی غمازی کرتی ہے ورنہ کرک کے ایم این اے شاہد خان کو عمران خان کا وہ تھپڑ اب بھی یاد ہو گا جب وہ کرک ہی میں سٹیج پر عمران خان سے ایک قدم آگے نکلنے کی جسارت کر رہے تھے۔
بہرحال اب ستائیس مارچ گزر چکی ہے۔ سرپرائز اب مزید سرپرائز نہیں رہا ہے البتہ عدم اعتماد کا سرپرائیز اب بھی موجود ہے۔ آج قومی اسمبلی میں قرارداد منظور ہو چکی ہے اور عدم اعتماد پر بحث کے لئے اکتیس مارچ سہ پہر چار بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا یے اور ساتھ ہی ساتھ عمران خان نے اپنے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کو بھی پرویز الہی کے لئے قربان کر کے ہمیشہ کی طرح ایک اور یوٹرن لیا ہے۔
ان کے متعلق عمران خان بولتے تھے کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت رہے گی عثمان بزدار وزیراعلی رہیں گے۔ شاید عمران خان کو اب اندازہ لگ رہا ہے کہ اب ان کا اور پی ٹی آئی کا جانا لازم ہو گیا ہے، وہ خود کو اور پارٹی کو بچانے کے آخری جتن کر رہے ہیں اور ڈوبتا آخر میں تنکے کا بھی سہارا لیتا ہے اور عمران خان سہارے پر سہارا لینے میں مصروف عمل ہے۔