پشاور: افغان فنکارائیں سامنے آںے سے گریزاں، ان کے دل میں ڈر سا بیٹھ گیا ہے
نظام افغان
افغانستان میں گزشتہ برس اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد گیت و سنگیت کے پروگراموں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جس کی وجہ سے افغان فنکاروں نے پاکستان سمیت دیگر ممالک کا رخ کر لیا۔ اس وقت افغان فنکاروں کی ایک بڑی اکثریت خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ادھر بھی انہیں کافی سارے مسائل درپیش ہیں۔
بکتا شنگار بھی ان فنکاروں میں شامل ہیں جو ہجرت کر کے پاکستان آئے ہیں، بقول ان کے وہ اپنا ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے مگر ایسا کرنا ان کی مجبوری تھی، ”دونوں حکومتیں ہمارے لئے ایک ہیں اور آنے کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں نئی حکومت ہمیں اپنے فن کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی اور کام بھی کوئی اچھا خاصا نہیں تھا جبکہ اس فن کے علاوہ ہمیں اور کوئی کام آتا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم معاشی طور پر کمزور ہو گئے تھے اور پھر کام بند ہونے کی صورت میں پشاور آ گئے مگر اب پروگرامز میں جاتے ہیں تو اتنا کما لیتے ہیں کہ گھر کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔”
بکتا شنگار کو ابتدائی چند ماہ کے دوران معاشی مسائل کا سامنا رہا لیکن بقول ان کے اب لوگ انہیں شادی بیاہ کی تقریبات میں مدعو کرنے لگے ہیں جس سے ان کا گزارہ چل پڑا ہے، ” اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اب اتنا کما لیتا ہوں کہ گھر کا خرچہ پورا ہو جاتا ہے۔”
افغان گلوکار نے مزید بتایا کہ پشاور آنے سے قبل یہاں کے لوگوں کے رویوں کے حوالے سے وہ بڑے فکرمند تھے تاہم اب انہیں پشاور اور کابل میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، ”اللہ سب کو نظر بد سے بچائے مجھے یہ احساس ہی نہیں ہوا ہے کہ میں پشاور میں ہوں یا کابل میں، سارے لوگ کافی خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں جبکہ پشاور کے موسیقار اور گلوکار بہت مدد کرتے پیں۔”
مردوں کی طرح افغان خواتین فنکاروں کی بھی ایک بڑی تعداد پاکستان آئی ہے لیکن یہ نظر نہیں آ رہیں جس کی ایک بڑی وجہ ان کے دلوں میں خوف بتائی جاتی ہے۔ شکیبہ افغان گزشتہ کئی سالوں سے خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں مقیم ہیں اور کہتی ہیں کہ یہاں پر آئیں افغان خاتون فنکارائیں کئی ایک مسائل سے دوچار ہیں۔
شکیبہ افغان کے مطابق یہ خواتین خوف و ڈر کی وجہ سے سامنے آتی ہیں نا ہی تقریبات میں شرکت کر سکتی ہیں، ” جو خواتین فنکارائیں ہیں وہ اس وقت ریکارڈنگ نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے دل میں ایک ڈر سا بیٹھ گیا ہے، افغانستان سے ان لوگوں کی بھی آدھی تعداد آئی ہے اور ان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں تو چاہیے کہ ان کو سپورٹ دی جائے، ان لوگوں کو اللہ نے ایسی آواز دی ہے کہ جو صرف کوئئٹہ کے فنکاردوں کے پاس ہے، ان کو اتنا سپورٹ کیا جائے کہ یہ لوگ بلا کسی خوف کے پاکستان میں پھر سکیں اور یہ خواتین پاکستان میں آزادانہ طور پر کام کر سکیں، زیادہ تر فنکار و فنکاراؤں نے یو این ایچ سی آر میں کیسز بھی دائر کئے ہیں مگر پہلے یو این ایچ سی آر میں کیسز دائر کر لیتے تھے تو کوئی نہ کوئی تعاون مل جاتا تھا مگر اب ہم جاتے ہیں افغان کارڈ بنانے کے لئے تو بہت ہی آسانی کے ساتھ تاریخ ملنے تک کہہ دیا جاتا ہے اور تاریخ آنے تک یہ خواتین گھروں میں محصور رہتی ہیں۔”
شکیبہ افغان حکومتِ پاکستان اور دیگر متعلقہ حکام سے مطالبہ کرتی ہیں کہ نئے آنے والی افغان خواتین فنکاراؤں کو سیکورٹی سمیت دیگر سہولیات دی جائیں تاکہ ان کے مسائل میں کمی آ سکے، ”گھر کرائے پر پہلے تو اندراج کے مسئلے کی وجہ سے ہمیں ملتے نہیں اور جب ملتے ہیں تو ہم سے پاکستانی شہریوں کی بہ نسبت زیادہ کرایہ لیا جاتا ہے، باقی پندہ ہزار دیتے ہیں تو ہم تیس ہزار دیتے ہیں، اعلی عہدوں پر فائز لوگ ہمیں اپنا افغان کارڈ دے دیں تو یہ ان کی سپورٹ ہو گی ہمارے ساتھ کیونکہ اگر ہمیں سپورٹ مل جائے تو ہم اپنے موسیقی کے پروگرام واپس شروع کر دیں گے، فی الحال ہمیں کوئی سپورٹ حاصل نہیں ہے، یو این ایچ سی آر میں ہمارے دائر کئے گئے کیسز میں تعاون کیا جائے اگر ایسا ممکن نہیں تو ہمیں مہاجر کارڈز دیئے جائیں۔”
پشتو گلوکار اور خیبرپختونخوا کے گلوکاروں کی مرکزی تنظیم کے صدر اور پشاور یوننیورسٹی سے موسیقی میں پی ایچ ڈی کے سکالر راشد احمد خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ افغانستان میں جب موسیقی پر تبدیلی عائد ہوئی، جب وہاں یہ نئی حکومت آئی تو اس کے نتیجے میں ہمارے موسیقاروں کی ایک بڑی تعداد خیبر پختونخوا آ گئی جہاں انہیں کافی مسائل کا سامنا تھا جن میں سب پہلا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس ویزے نہیں تھے، اور وہ بغیر ویزہ پاسپورٹ کے یہاں بڑی مشکلوں سے آئے تھے، دوسرے وہ لوگ جو پاسپورٹ کے ساتھ ادھر آئے تھے اور انہیں روزگار سے متعلق مشکلات درپیش تھیں، اس میں سب سے پہلے تو ہماری تنظیم حکام کے ساتھ بیٹھ گئی کہ اور انہیں بتایا کہ یہ لوگ ادھر آئے ہیں، وہاں موسیقی پر پابندی تھی، ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور ان کی جانوں کو بھی خطرہ ہے، انہوں نے اس سلسلے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا اور کہا کہ ہم کبھی بھی ایسا کام نہیں کریں گے کہ انہیں واپس بھیج دیں۔
راشد خان کے مطابق ان کے ساتھ دوسرا مسئلہ پولیس کے حوالے سے تھا، تو اس میں ہم اب بھی مصروف ہے اور اگلے اک دو روز میں ہماری وزیر اعلیٰ کے مشیر بیرسٹر سیف کے ساتھ ملاقات طے ہے، ان کے ساتھ اس حوالے سے بات کریں گے، عرصہ ہو گیا ہے اس طرح کا کوئی مسئلہ تو نہیں آیا لیکن ایسا ہو جاتا ہے کبھی کبھی کہ پولیس انہیں گرفتار کر لیتی ہے، ہم انہیں چھڑوا لیتے ہیں لیکن ہماری تنظیم کے لئے مشکل تو ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ان موسیقاروں کو کاروابری مشکلات درپیش تھیں، اور ہماری خواہش تھی کہ یہ لوگ ادھر آزادنہ طور پر اپنے فن کو جاری رکھیں اور اپنے لئے کمائی کریں، تو اس حوالے سے بھی حکام کے ساتھ ہماری بات ہوئی ہے پھر موسیقی کے عالمی دن کے موقع پر ہم نے قراردادیں منظور کیں، حکام نے میں اک بار پھر یقین دلایا کہ وہ ان افغان ہنرمندوں کو ہر طرح سے سپورٹ کریں گے، وزیر اعلیٰ کے مشیر بیرسٹر سیف نے یہاں کی فنکار برادری سے کہا کہ ان کے لئے پروگرام کریں۔
ان کے ساتھ کتنے افغان، میل و فی میل، فنکار رجسٹرڈ ہیں، اس حوالے سے راشد خان نے بتایا کہ صرف خیبر پختونخوا میں ڈیڑھ سو کے قریب افغان فنکار ان کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، کراچی میں بھی بیس تیس افغان رجسٹرڈ ہیں، خواتینن افغان فنکاراؤں کی تعداد چھ تا دس تک بتائی جا رہی ہے لیکن وہ سامنے نہیں آ رہیں کیوکہ ان کی جانوں کو خطرہ ہے۔
اپنی خدمات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ سیکیورٹی کا تھا کہ انہیں تحفظ حاصل ہو، دوسرے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان کو تنگ نا کیا جائے، رہائش کے لئے این او سی کے سلسلے میں معاونت کی جائے اور اسی طرح جیسے ہمارے یہاں کے فنکاروں کے ساتھ ہوتا ہے بالکل اسی طرح انہیں بھی یہاں روزگار کے مواقع دیئے جائیں، تو ان تمام امور پر حکومت نے ہمارے ساتھ اتفاق کیا ہے۔
اس سلسلے میں انہیں کس کس کا تعاون حاصل رہا ہے اس حوالے سے راشد خان نے بتایا کہ اور کسی نے نہیں کیا بس حکومت اور ہماری تنظیم نے اپنی مدد آپ کے تحت کام کیا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہماری موسیقی اور پیچھے چلی گئی، مستقبل اللہ کرے کہ بہtر ہو جائے لیکن مجھے نہیں لگ رہا کہ ہماری موسیقی کا مستقبل اچھا ہے۔
افغانستان سے آنے والے بیشتر افغان فنکار خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں سے واقف ہیں تاہم پھر بھی بکتا شنگار جیسے کئی لوگ ہیں جو پہلی مرتبہ یہاں آئے ہیں، اور یہی مسئلہ خواتین فنکاراؤں کے ساتھ بھی ہے۔ افغان ہنرمندان سمجھتے ہیں کہ پشاور ان کا دوسرا گھر اور یہاں کے عوام ان کے اپنے لوگ ہیں۔