سیاست

سیاسی بحران میں او آئی سی کی میزبانی، پاکستان تنہا نہیں

محمد فہیم

پاکستان چار ماہ کے دوران مسلسل دوسری مرتبہ اسلامی ممالک کی میزبانی کررہا ہے دسمبرمیں اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کی میزبانی پاکستان نے کی تھی اور اب مارچ میں دو روزہ کانفرنس کی میزبانی بھی پاکستان کررہا ہے 22 اور 23 مارچ کو ہونیوالی دو روزہ کانفرنس اس حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ گزشتہ کانفرنس میں پاکستان وہ نتائج حاصل نہیں کرسکا تھا جو امید کی جا رہی تھی لہٰذا اس بار کی کانفرنس میں پاکستان ان وزراء خارجہ سے جو امیدیں لگائے بیٹھا ہے اس کا حصول پاکستان کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ کانفرنس میں شرکت کیلئے 46 ممالک کے وزراء خارجہ نے شرکت کی تصدیق کی ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے ان ممالک کے وزراء خارجہ کی پاکستان آمد صرف دو روزہ اجلاس نہیں ہے بلکہ اس اجلاس کا پیغام دنیا بھر تک پہنچانا مقصود ہے۔

پاکستان تنہا نہیں ۔۔۔۔
پاکستان اور امریکہ کے معاملات ایک نئے موڑ پر کھڑے ہیں روس اور یوکرین تنازعہ میں پاکستان کا کردار امریکہ کے حق میں نہیں تھا اور ملک کے وسیع تر مفاد نے پاکستان نے اس معاملہ پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا اس تنازعہ سے قبل چین میں ہونیوالے سرمائی اولپمکس سے یورپ نے بائیکاٹ کردیا تھا اور پاکستان یورپ کے مخالف جاتے ہوئے چین کے ساتھ بیٹھ گیا جبکہ چین اور روس کو دعوت نہ دینے پر پاکستان نے امریکہ میں ہونیوالی جمہوری سمٹ میں بھی شرکت نہیں کی تھی ان تمام واقعات کے بعد بھارت اور دیگر مخالفین یہ پراپیگنڈا کررہے تھے کہ پاکستان چین اور روس دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں اس دو روزہ سمٹ سے وہ تاثر مکمل طور پر زائل ہو جائیگا پاکستان کا ساتھ دینے کیلئے ایک چوتھائی دنیا یعنی 46ممالک یہاں آنے کو تیار ہیں جو اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان دنیا میں اکیلا نہیں ہے جبکہ حال ہی میں امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کی ترجمان نے بھی وزیر اعظم کے بیان اور امریکی صدر کے فون کالز کے متعلق خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی ہے جو واضح کرتا ہے کہ پاکستان اب بھی امریکہ کیلئے انتہائی اہم ہے۔

کشمیر اور افغانستان کی امیدیں۔۔۔۔
اسلامی تعاون تنظیم وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس سے کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اب افغانستان نے بھی امیدیں باندھ لی ہیں اقوام عالم کی دولت کا جائزہ لیاجائے تو مسلمان ممالک دنیا میں کسی سے کم نہیں ہے لیکن یہ امداد اب تک افغانستان کیلئے اس طرح سامنے نہیں آسکی ہے جس طرح امید کی جا رہی ہے افغانستان میں بین الاقوامی اداروں کے مطابق 90فیصد سے زائد شہریوں کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو اگست میں 40فیصد سے زائد تھی یعنی موجودہ حکومت آنے کے بعد خوراک کی قلت کا سامنا کرنے والوں کی تعداد دگنی سے بھی تجاوز کرچکی ہے ایسے میں صرف پاکستان ہی افغان شہریوں کیلئے ہر جگہ آواز بلند کررہا ہے جبکہ اب تک افغانستان کو سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک بھی پاکستان ہی ہے ۔ حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ یہاں کام کرنیوالے غیر سرکاری اداروں نے بھی دل کھول کر افغانستان کے عوام کی مدد کی ہے تاہم افغان ضرورت پوری کرنے میں اب بھی مزید مدد کی ضرورت ہے ایسے میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ سے یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ وہ افغانستان میں جاری انسانی بحران کے خاتمہ کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کرینگے اسی طرح کشمیر کے معاملہ پر بھی کافی عرصہ سے خاموشی چھائی ہوئی ہے اس دو روزہ اجلاس میں کشمیر کے معاملہ پر پڑی اوس ہٹانے میں بھی مدد ملے گی۔

فیٹف کی گرے لسٹ۔۔۔۔
پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے فیٹف کی گرے لسٹ پر موجود ہے اور ہر ممکن کوشش کرنے کے باوجود بھی اس گرے لسٹ سے ہٹنے میں کامیابی نہیں مل رہی الٹا ہم اس بات پر انتہائی خوش ہو رہے ہیں کہ ہم گرے لسٹ میں ہیں اور بلیک میں اب تک نہیں گئے تاہم اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس اس حوالے سے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے پاکستان پر فیٹف کی جانب سے جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ایسے میں 46ممالک کا پاکستان پر اعتماد یہ بات کا غماذ ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور ہمارے مالی و انتظامی معاملات انتہائی درست انداز میں چلائے جا رہے ہیں پاکستان اس اجلاس میں اس معاملہ کو کس طرح پیش کرتا ہے اور ان ممالک کا تعاون کس حد تک حاصل کرتا ہے وہ بعد کی بات تاہم ان ممالک کی آمد ہی دنیا کیلئے یہ پیغام رکھتی ہے کہ یہ 46ممالک پاکستان پر اعتماد کرتے ہیں۔

سیاسی بحران میں مہمانوں کی آمد۔۔۔۔
پاکستان ایسے وقت میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کی میزبانی کررہا ہے جب ملک ایک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے انتہائی سخت دھمکی کے بعد اسے واپس لینا انتہائی خوش آئیند ہے تاہم ان معاملات میں سب سے بڑا مسئلہ حکومت اور وزارت خارجہ کا ہوم ورک ہے۔ ایوان میں جاری عدم اعتماد کی فضا میں وزیر اعظم سے لیکر ایوان میں موجود اور ایوان سے باہر بیٹھے تمام سیاسی رہنما انتہائی سخت زبان استعمال کررہے ہیں جس کا اثر براہ راست اس کانفرنس پر بھی پڑسکتا ہے تاہم پریشر کے وقت ہی اصل کارکردگی نظر آتی ہے اور وزارت خارجہ کی جانب سے اس کانفرنس کیلئے کئے گئے اقدامات کے ساتھ ساتھ اپنا مدعہ رکھنے کا معاملہ انتہائی اہم ہے۔ اگر وزارت خارجہ اس کانفرنس کو صرف منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے مقررہ اہداف حاصل کرگیا تو دنیا بھر کو ایک ایسا پیغام جائیگا جو مدتوں یاد رکھا جائیگا کہ پاکستان اس حد تک مستحکم ہوگیا ہے کہ اندرونی خلفشار کے باوجود وہ بین الاقوامی سطح پر ایک پراعتماد انداز میں آگے بڑھ رہا ہے اور اندرونی معاملات بیرونی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہورہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button