مردان: ”لڑکیوں نے سڑکوں پر کھیل کر فحاشی کا مظاہرہ کیا ہے”
سدرہ ایان
مردان سپورٹس کمپلیکس میں فتح سے ہمکنار کھلاڑی لڑکیوں کے جشن منانے کی سیاق و سباق اور حقائق سے ہٹ کر ہونے والی سوشل میڈیا کوریج کی وجہ سے چار دن کی کھیلوں کی تقریبات کو ایک دن میں سمیٹ لیا گیا۔ انتشار پھیلانے کی دفعات کے تحت مقامی صحافی اور اس کے ہمراہیوں کے خلاف ایف آئی آر متعلقہ تھانے میں درج کی گئی تاہم حکومتی افسران لڑکیوں کے کھیل دوبارہ منعقد کروانے کے حوالے سے پرعزم اور پرامید ہیں۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ مردان سپورٹس کمپلیکس میں 15 مارچ سے 18 مارچ تک کھیلوں کا انعقاد کیا گیا جس میں مرد و خواتین دونوں کے کھیل شامل تھے لیکن وہ دو، چار روزہ تقریب ایک دن میں ختم ہوئی جس کے بارے میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر جمشید بلوچ کا کہنا ہے کہ مقامی صحافی کی منفی رپورٹنگ کی وجہ سے ہم نے دو روزہ ایونٹ ایک ہی دن میں ختم کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ کوئی انتشار پھیلے، باقی کے جو میچیز رہتے ہیں وہ اگلے ہفتے کسی اور مناسب جگہ پر منعقد ہوں گے۔
صحافی کی بڑھا چڑھا کر کی گئی رپورٹنگ کی وجہ سے جمشید بلوچ صاحب کی ذاتی اور پروفیشنل زندگی کافی متاثر ہوئی لیکن جمشید بلوچ صاحب کا کہنا ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں، یہ کھیل ایسے ہی ہوتے رہیں گے۔
مردان سپورٹس کمپلیکس میں ہر کھیل کے لیے الگ میدان ہے لیکن جو کرکٹ کا میدان ہے وہ سڑک کے قریب ہے جہاں سے کوئی بھی میچ کا نظارہ کر سکتا ہے۔ اور جو کرکٹ میچ کا میدان ہے اس میں ابھی تک لڑکے کھیلتے آئے ہیں لیکن اس میدان میں لڑکیاں پہلی مرتبہ کھیلیں جس کے ساتھ ہی مردان میں ایک ہنگامہ برپا ہوا کہ لڑکیوں نے سڑکوں پر کھیل کر فحاشی کا مظاہرہ کیا ہے۔
سپورٹس کمپلیکس میں یہ تقریب ہونے کے بعد ایک مقامی صحافی اور کئی علماء اور مقامی لوگ احتجاج کے لیے مردان سپورٹس کمپلیکس گئے اور انھوں نے تحریری معاہدے کا مطالبہ کیا کہ آئندہ یہاں ایسی بے حیائی نہیں ہو گی۔ اس صحافی کی متعلقہ ویڈیو مردان میں وائرل ہو گئی جس میں مقامی افراد سپورٹس کمپلیکس کی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ایسی تقریبات پر پابندی لگائی جائے۔
ایک مذہبی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بندے نے کہا کہ ہم جرگہ لائے ہیں جس کا مطالبہ ہے کہ ہمارے رسم و ررواج اور ثقافت کا مذاق نہ اڑایا جائے اور جو ایسا کرے اس کی ہرگز مدد نہ کی جائے۔
ویڈیو میں ایک مذہبی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اور بندے نے کہا کہ والدین بچوں کو تعلیم کے لیے سکول اور کالج بھیجتے ہیں اور یہ لوگ ان کے والدین کی اجازت کے بغیر انھیں گاڑیوں میں یہاں لاتے ہیں اور ان سے تماشے کرواتے ہیں۔
اپنی ویڈیو میں مقامی صحافی نے یہ دعویٰ کیا کہ سپورٹس کمپلیکس کے لیے کوئی فنڈز نہیں لیکن پھر بھی یہاں خواتین کے کھیلوں کو زیادہ ترجیح دی جا رہی ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ لوگ لڑکیوں کے والدین کی اجازت کے بغیر ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں۔
جبکہ مردان کے فنانس آفیسر نیک محمد کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ مردان سپورٹس کمپلیکس کے لیے کوئی فنڈ نہیں، فنڈز نہ ہوں تو اتنے بڑے فیسٹیولز کیسے ہوں گے، ”مردان سپورٹس کمپلیکس میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے کھیلنے کے لیے ٹھیک ٹھاک فنڈز ہیں۔”
اس تنازعہ کے حوالے سے مردان سے تعلق رکھنے والے سپورٹس جرنلسٹ عارف مَردانوی صاحب کا کہنا ہے کہ کوئی بھی لڑکی اپنے گھر سے اجازت کے بغیر آئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ”ہم کھلاڑیوں کی تصاویر آفیشل پیج سے اپ لوڈ تو کرتے ہیں لیکن ان کی اجازت کے ساتھ!”
عارف مردانوی کے مطابق کئی دن پہلے انہوں نے سنٹرل جیل میں قیدیوں کے لیے بھی فیسٹیول ارینج کیا تھا، کھیل لڑکیوں کی نشو و نما کے لئے اسی طرح ضروری ہیں جس طرح لڑکوں کے لئے، لڑکیوں کے کھیل جاری رہنے چاہئیں۔
سپورٹ جرنلسٹ نے کہا کہ اس وومن ٹیم میں تمام لڑکیاں سکول کالج کی طالبات نہیں بلکہ کھلاڑی ہیں جو قومی سطح پر کھیل کھیلتی ہیں اور ان کھیلوں کا مقصد خواتین کے کھیلوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔
جبکہ سیکشن 188,506,452,184,149,186 کے تحت مقامی صحافی اور اس کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں پر شیخ ملتون تھانے میں ایف آئی آر درج ہوئی۔ ان دفعات سے مراد ہے کہ بندہ سرکار کے کام میں مداخلت کرے، ڈرائے دھمکائے، بحث و مباحثہ کرے اور اپنے ساتھ کسی غیرقانونی کام کے لیے پانچ یا پانچ سے زیادہ لوگ لے کر جائے تو ان آرٹیکلز کے تحت ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔
اے این پی مردان کی نائب صدر سیدہ نازیہ شاہ کا کہنا ہے کہ مردان سپورٹس کمپلیکس میں لڑکیوں کے کھیلنے پر پابندی لگانا یا ڈیمانڈ کرنا حیران کُن ہے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی تک اسی میں لگے ہوئے ہیں کہ لڑکی پڑھے گی لڑکی نہیں پڑھے گی، لڑکی کھیلے گی یا لڑکی نہیں کھیلے گی، ہم یہ سب کر کے دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، اگر ہم دنیا سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی بیٹیوں کو سپورٹ کر کے انھیں وہ تمام حقوق دینے ہوں گے جو ہمارے معاشرے میں ایک مرد کو حاصل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سپورٹس کمپلیکس کے منتظمین کو بھی چاہیے کہ وہ ثقافت و روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام وہ انتظامات کر کے گیمز ارینج کر لیا کریں کہ جس سے تنقید کرنے والوں کو تنقید کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
مردان سے تعلق رکھنے والی نیشنل ٹیم کی کھلاڑی کائنات گل نے کہا کہ گیمز ایک انتہائی صحت مند ایکٹیویٹی ہے اور خواتین کو گیمز سے روکنا افسوسناک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کراچی اور لاہور تک کھیلنے گئی ہیں لیکن وہ ٹریک سوٹ اور شوز بیگ میں رکھتی ہیں اور عبایا پہن کر جاتی ہے اور کھیل کے بعد واپس ٹریک سوٹ بیگ میں رکھ کر عبایا پہن کر واپس گھر آتی ہیں۔ کائنات نے کہا کہ ایسی منفی رپورٹنگ کے بعد کھلاڑی کافی ڈر گئی ہیں۔ ”کھیل کود جس طرح ایک مرد کا حق ہے ویسے ہی عورت کا بھی ہے۔ صرف مردان ہی میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں خواتین کھیلوں کا حصہ بنتی ہیں اور ان کھیلوں کی کوریج بھی ہوتی ہے۔ یہ کوئی نئی اور انہونی بات نہیں ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے الگ گراؤنڈز بنا دیں اور اس طریقے سے بنائیں کہ تنقید کرنے والوں کو تنقید کرنے کا موقع نہ ملے۔