جرائم

کیا پولیس نے واقعی کرن خان اور اس کے ساتھیوں کے آلات توڑ ڈالے؟

مصباح الدین اتمانی

”پولیس "نعرہ تکبیر اللہ اکبر” کے نعرے لگاتے ہوئے فارم ہاؤس میں داخل ہوئی، ہم خوفزدہ ہوئے کہ پولیس وردی میں ملبوس طالبان حملہ آور ہوئے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔” یہ کہنا ہے دلشاد آفریدی کا جنہوں نے گزشتہ روز اپنے دوست کی شادی کے موقع پر موسیقی کی محفل سجائی تھی لیکن پولیس نے ریڈ کر کے زبردستی نہ صرف ان کا پروگرام بند کروایا بلکہ دلہے سمیت نو افراد کو پشتخرہ تھانہ بھی لے گئی جن کو بعد میں رہا کیا گیا۔

دلشاد آفریدی نے بتایا کہ 18 مارچ کو میرے دوست کی شادی تھی ہم نے قریبی دوستوں کیلئے اپنے پرائیویٹ فارم ہاؤس پر چار دیواری کے اندر ایک سادہ پروگرام کا اہتمام کیا تھا، کرن خان سمیت 100 سے زیادہ لوگ مدعو تھے، پروگرام شروع تھا کہ اچانک پولیس نے چھاپہ مارا اور "نعرہ تکبیر، اللہ اکبر” کی صدائیں لگاتے ہوئی کرن خان کی طرف دوڑ پڑی، ہم خوفزدہ ہوئے کہ طالبان آ گئے ہیں۔

ادلشاد آفریدی کے مطابق پولیس نے کسی سے بات نہیں کی، کرن خان کے ساتھ بیٹھے فنکاروں کے آلات زمین پر دے مارے، لوگوں کو مارا اور ان کے کپڑے پھاڑے، پولیس نے کرن خان کے ساتھ بھی تضحیک آمیز سلوک کیا، جس نے ویڈیوز بنائیں پولیس نے ان کے موبائلز چھینے، پروگرام کو بند کیا اور دلہے سمیت نو بندے پشتخرہ تھانہ لے گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم تھانے گئے اور ایس ایچ او سے درخواست کی کہ جو لوگ پکڑے ہیں ان کو رہا کیا جائے یہ ہمارے مہمان ہیں لیکن ان کا رویہ انتہائی سخت تھا۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں پشتخرہ تھانہ کے ایس ایچ او ظفر خان نے بتایا کہ ہم نے یہ کارروائی اہل علاقہ کی شکایت پر کی ہے جن کا کہنا تھا کہ ایک طرف شب برات ہے اور دوسری طرف یہ لوگ موسیقی کا پروگرام کر رہے ہیں جو غلط ہے، ہم نے لوگوں کے جذبات کو مدنظر رکھ کر کارروائی کی، ہم نے پروگرام بند کرنے کا کہا اور فنکاروں کو بحفاظت وہاں سے نکالا کیوں کہ لوگوں کے غم و غصے میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس پر جو دو لاکھ روپے اور بیگ لے جانے کا الزام لگایا جا رہا ہے اس کی ویڈیوز موجود ہیں اور اگر وہ چاہتے ہیں تو آ جائیں ہم ان کیلئے ایف آئی آر درج کروائیں گے اور اس کی تحقیقات کریں گے۔

ایس ایچ او ظفر خان نے بتایا کہ ہم نے موسیقی پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے لیکن لوگوں کے جذبات کو پیش نظر رکھ ہم نے امن و امان کی خاطر یہ کارروائی کی، ہم نے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔

لیکن دلشاد آفریدی نے پولیس کے اس موقف کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا پروگرام چاردیواری کے اندر تھا، اس میں علاقے کے لوگ بھی موجود تھے، نہ کسی نے شکایت کی تھی اور نہ ہی آواز اتنی تیز تھی کہ اس سے اردگرد کے رہائشی متاثر ہوتے۔

دلشاد آفریدی کےمطابق رات ایک بجے کے بعد پولیس نے دلہے سمیت تمام افراد کو رہا کیا۔

خیبر پختون خوا کے فنکاروں کی تنظیم کے صدر راشد خان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی یہ امر تشویشناک ہے، جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے اب وہ یہاں بھی شروع ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ حالات رہے تو ہنرمند جلد یہ ملک بھی چھوڑ کر چلے جائیں گے، ابھی تک کرن خان سے رابطہ نہیں ہوا ہے، پورے ملک میں ہماری 14 کابینہ ہیں، اٹھارہ سو سے زیادہ ممبرز ہیں، اگر کرن خان کہیں تو ہم اس کیلئے ضروری نکلیں گے۔

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں طارق افغان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس ملک میں ہر شہری کے حقوق ہیں اور جس کے تحفظ کی آئین ضمانت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسیقی غیرقانونی نہیں، اگر کوئی اپنی پرائیویٹ جگہ میں پروگرام کر رہا ہے اور اس سے اردگرد کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں یا ان کو کوئی اعتراض ہے تو وہ درخواست دیں گے جس کے بعد پولیس کارروائی کریں گے، پولیس کی کارروائی قانون کے دائرہ کار میں ہو گی۔

طارق افغان نے بتایا کہ حالیہ واقعہ کے حوالے سے ویڈیو میں پولیس کا باڈی لینگویج دیکھا جا سکتا ہے، موسیقاروں پر تشدد کرنا ان کے اختیار میں نہیں، اگر پولیس کو درخواست دی گئی تھی تو وہ کرن خان کو گرفتار کرتے، آرگنائزرز کو گرفتار کرتے، موسیقی کے آلات کو بطور کیس پراپرٹی کے طور پر لیتے، توڑنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی درخواست سامنے نہیں آئی ہے، پولیس والے اپنے کرتوت چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، واقعہ میں ملوث ایس ایچ کو فوری طور پر معطل کیا جائے، دیگر پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جائے اور ان کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button