خیبر پختونخوا میں بھی تحریک عدم اعتماد: کیا تاریخ خود کو دہرانے جا رہی ہے؟
انور زیب
قومی اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعلی محمود خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گذشہ روز دیر میں میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر نجم الدین نے دعوی کیا ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 45 ارکان پی پی پی سے رابطے میں ہیں، مرکز کے بعد صوبے میں بھی جلد عدم اعتماد لائیں گے تاہم خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ یہ دعوی مبالغہ ارائی کے سوا کچھ نہیں، یہ صرف حکومت پر دباؤ لانے کی ایک کوشش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر نجم الدین یہ دعوی کرتے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ 45 ایم پی ایز نے رابطہ کیا ہے تو اس بات میں وزن ہوتا لیکن صرف اگر پی پی پی کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں اراکین کا رابطہ کیسے ہو سکتا ہے، اسمبلی میں تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے، عدم اعتماد کی کامیابی بہت مشکل لگ رہی ہے، حکمران جماعت کی پوزیشن صوبے میں اس وقت انتہائی مضبوط ہے۔
ظفر اقبال کے مطابق ایم پی ایز کا پی پی سے رابطے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شمولیت کریں گے یا کر رہے ہیں تاہم پی ٹی آئی سے اگر لوگ کسی دوسری جماعت میں جائیں گے تو وہ جے یو آئی کو ترجیح دیں گے، موجودہ صورتحال میں صوبے میں پی پی پی کی پوزیشن اتنی مستحکم نہیں کہ تحریک انصاف چھوڑ کر کوئی ادھر جائے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے 145 میں سے 94 ایم پی ایز پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں، ق لیگ کا ایک اور بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ارکان بھی پارٹی کے اتحادی تھے تاہم چند دن پہلے باپ پارٹی نے بھی تحریک انصاف کو خیرباد کہہ دیا۔
اسمبلی میں چار آزاد امیدواروں سمیت اپوزیشن کے ساتھ 50 ایم پی ایز ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 5، پی ایم ایل این کے 7، متحدہ مجلس عمل کے 14، جے یو آئی کے 3 ممبر شامل ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 4، جماعت اسلامی کا ایک ممبر ہے۔ چار ایم پی ایز آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں، 12 ایم پی ایز عوامی نیشنل پارٹی کے ہیں۔ اگر عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو اس کو پاس کرنے کیلئے اپوزیشن کو عدم اعتماد کیلئے تحریک انصاف کے کم سے کم 23 اراکین کی ضروت پڑے گی۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں جمیعت علماء اسلام کے صوبائی ترجمان جلیل جان نے بتایا کہ صرف پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نہیں بلکہ وزراء بھی ان کی پارٹی کے رہنماؤں سے رابطہ میں ہیں اور جلد شمولیتیں بھی متوقع ہیں تاہم صوبے میں عدم اعتماد لانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پہلے وفاق میں تحریک کامیاب ہو تو پھر صوبے میں اس پر کام کریں گے فی الحال دو فرنٹ کام نہیں کر سکتے۔
ظفر اقبال کے مطابق کچھ لوگ پاکستان تحریک انصاف سے جانا چاہتے ہیں جن میں پشاور اور جنوبی اضلاع کے کچھ ایم پی ایز شامل ہیں لیکن وہ پیپلز پارٹی میں نہیں جا رہے۔
تاریخی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو وفاق میں تحریک عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہوئی تاہم خیبر پختونخوا میں ایک دفعہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تھی جس کو آج تک متنازعہ اور رولز کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
ڈان نیوز سے وابستہ صحافی وسیم احمد شاہ کے 1993 میں مطابق جب عدم اعتماد کیلئے اجلاس بلایا گیا تو اس وقت کے سیپیکر ہدایت اللہ چمکنی نے منحرف ایم پی ایز کو ہال میں آنے سے روک دیا تھا جس سے یہ تحریک متنازعہ ہو گئی تھی۔ بعد میں اسپیکر نے اجلاس کو غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا تھا۔ ایک عرصہ تک اپوزیش اور حکومت کے درمیان تنازعہ کے بعد صوبے میں گورنر راج قائم کیا گیا اور اسمبلی معطل کر دی گئی۔
وسیم احمد شاہ کے مطابق بعد میں پیر صابر شاہ کو ووٹ آف کنفیڈنس (اعتماد کا ووٹ) لینے کیلئے کہا گیا تاہم اسمبلی معطل ہونے کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں نے اجلاس میں آنے سے انکار کر دیا اور یوں پیر صابر شاہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے آفتاب شیر پاو وزیر اعلی بن گئے۔
پیر صابر شاہ اکتوبر 1993 سے فروری 1994 تک وزیر اعلی رہے۔ مسلم لیگ ن نے اے این پی اور چند آزاد امیدواروں کو ملا کر صوبے میں حکومت بنائی تھی۔ عدم اعتماد کی تحریک پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے آفتاب شیر پاؤ نے پیش کی تھی جو اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے۔
صوبے میں عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو نہ وفاق میں کچھ ملنے والا ہے نہ صوبے میں، اقتدار کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والا قصہ شروع کیا ہے، (اور) عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔