گرچہ زبان گوشت کا ایک لوتھڑا ہے لیکن وار اس کا کاری ہے!
ماخام خٹک
ایک کہاوت کہہ لیجئے یا ایک دانشورانہ قول سمجھ لیجئے جس میں زبان کی اہمیت یا زبان کے استعمال کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یعنی زبان اگرچہ گوشت کا لوتھڑا ہے پر مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب اِس بات کو کسی بھی زاویے سے پرکھیں نتیجہ وہی نکلے گا جو اِس کا ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید میں سورة حجرات میں غلط ناموں اور برے القابات سے منع فرمایا گیا ہے۔ غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ آواز کو اونچا رکھنے کے بجائے دھیمی اور نیچی رکھنے کا کہا گیا ہے۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ تم کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا بھلا نہ کہو کہیں وہ تمھارے سچے خدا کو برا بھلا نہ کہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تلوار کی چوٹ یا تلوار کا زخم مندمل ہو سکتا ہے پر زبان کا زخم تادم زیست پیوند ہونے سے قاصر رہتا ہے۔ زبان واحد گھوڑا ہے جس کو سواری کے بغیر لگام دی جاتی ہے۔ زبان واحد چڑیا ہے جب یہ چوں چوں شروع کرتی ہے تو اِسے چونچ بند رکھنے کی تنبیہہ دی جاتی ہے۔
اگر کوئی زبان کو بڑی شائستگی سے استعمال کرتا ہے تو خوش زبان اور رطب اللسان اور بااخلاق آدمی سمجھا جاتا ہے جبکہ اگر کوئی زبان کو غیرشائستہ استعمال کرتا ہے تو اسے بدزبان، چرب زبان اور بداخلاق پکارا جاتا ہے۔ پھر بندے بندے کی حیثیت میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اگر بندہ معاشرتی طور پر اِس حیثیت کا نہیں ہے کہ اُس پر سماجی حیثیت کے حوالے سے انگلی اٹھائی جائے تو ایسے بندے کو اس کے محدود دائرے تک دھتکارا جاتا ہے لیکن اگر ایک فرد سارے سماج کے سب سے اونچے منصب پر فائز ہو تو ایک تو بصر کے حوالے سے ہر کسی کو دکھائی دیتا ہے دوسرے سمع کے حوالے سے بھی ہر کسی کی سماعتوں سے جڑا رہتا ہے۔ جیسے کہ آج کل ہماری سیاست میں ہو رہا ہے۔ گالم گلوچ، طعن و تشنیع، برا بھلا، زبان درازی تو جیسے سیاست کا جزو لازم بن چکی ہو۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ میری دانست میں اِس لئے ہے کہ بظاہر ہر کوئی سیاست کو خدمت سمجھ کر عوام کے سامنے آتا ہے لیکن خدمت میں تو معاشی نقصان ہوتا ہے، پیسے کمائے نہیں لگائے جاتے ہیں۔ خدمت میں شراکت داری اور تقسیم کار ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے جب خدمت کے نام پر کاروبار شروع ہو جائے اور لوگ باگ لگانے کے بجائے کمانے لگ جائیں تو پھر خدمت میں ساجھے داری، تقسیم کار کے بجائے مارکیٹنگ شروع ہو جاتی ہے اور مارکیٹنگ میں "مکمل مقابلہ” کے اصول اپنائے جاتے ہیں۔ "گو سلو” کے پالیسی پر چلنا پڑتا ہے۔ مکمل اجارہ داری یا مارکٹ موناپلی کو اپنایا جاتا ہے تو ایسے میں اگر کوئی فریق دوسری جانب سے اگر اس سب سیٹ اپ کو وقت سے پہلے چھیڑتا ہے تو متعلقہ یا متاثرہ فریق کو تو ٹھیس ضرور پہنچے گی، کون اپنا جمع جمایا کاروبا چھوڑ سکتا ہے؟
دوسری جانب دوسرا فریق یہ سب کچھ دے کر خدمت کے نام پر ایسا ہی کرنے کے لئے پر تول رہا ہوتا ہے تو ایسے میں مفادات کا ٹکراؤ تو ہونا ہی ہونا ہے۔ اور جب مفادات معاشی ہوں تو پھر معاش کا پہلا اصول اخلاقیات سے شروع ہوتا ہے اور اخلاقیات پر ہی ختم ہوتا ہے۔
اب ضروری نہیں کہ ہر کسی کے اخلاق اونچے ہوں، اگر بندہ بااخلاق ہو تو سارے مسئلے اور قضیے باتوں سے ہموار کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر وہ بااخلاق نہ ہو تو وہ مسئلے کو سلجھانے کے بجائے الجھا کر گالم گلوچ، دھینگامشتی اور باتوں کے بجائے لاتوں تک لے آئے گا۔ کہنے والے ایسے موقعوں پر یہ بھی کہتے ہیں کہ شریف شرفا اپنے گندے کپڑے گھر کے اندر دھوتے ہیں پر شرافت سے بالاتر چادر اور چاردیواری کی پرواہ کئے بغیر باہر گلی میں میل کچیل نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔
ایسے میں پھر دور کی لڑائی نہیں، لڑائی محلے سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے میں بیچ بچاؤ کرنے والا ثالث حتی الامکان کوشش کرتا ہے کہ مسئلے کو کسی طریقے سے رفع دفع کرے لیکن دیکھا گیا ہے کہ وہی ثالث اکثر دونوں جانب کے مکوں اور لاتوں کی زد میں آ کر زخمی ہو جاتا ہے۔ اور ایسے میں یا تو وہ ثالث دونوں سے ہاتھ کھیچ لیتا ہے یا پھر دونوں کے گریبانوں تک ہاتھ لمبے کر دیتا ہے اور دونوں کو اپنے قابو میں کرتا ہے۔ تماشا دیکھنے والے دیکھتے ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں اور پھر صرف اس لڑائی اور ثالث کے کردار پر بحث و مباحثے پر ایک بار پھر وقت گزاری کے لئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ تو بات میں زبان کی کر رہا تھا۔ ہر چھوٹی بات ایک لفظ سے شروع ہوتی ہے اور ہر بڑی بات ایک لفظ پر ختم ہو سکتی ہے، اگر کوئی اس کو سمجھنا اور ختم کرنا چاہتا ہو!